Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب اسمبلی بجٹ اجلاس: حکومتی ارکان کے نعروں نے اپوزیشن کو خاموش کرا دیا

وزیراعلٰی مریم نواز اپنی نشست پر بیٹھیں تو ساتھ بیٹھی مریم اورنگزیب اپنی نشست سے اٹھیں اور سرکاری نشریاتی ادارے کے کیمرہ مین کو کچھ ہدایات دیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا بجٹ مالی سال کے ختم ہونے سے پہلے پیش کر دیا گیا۔
قانونی طور پر یہ بجٹ گذشتہ برس جون کے مہینے میں پیش ہونا تھا تاہم صوبے میں نگراں حکومت ہونے کے باعث بجٹ اسمبلی میں پیش نہ ہو سکا۔ نگراں حکومت کابینہ کی اجازت سے تین تین مہینے کا بجٹ استعمال کرتی رہی۔
رواں برس فروری میں ہونے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی میں نگراں حکومت کے دور اور منتخب حکومت کا آئندہ کے تین مہینوں کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔
روایتی تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں جب وزیراعلٰی مریم نواز ایوان میں داخل ہوئیں، اور اپنی نشست پر بیٹھیں تو ساتھ بیٹھی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب اپنی نشست سے اٹھیں اور سرکاری نشریاتی ادارے کے کیمرہ مین کو کچھ ہدایات دیں اور پھر اپنی نشست پر واپس آ گئیں۔
بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن رہنما رانا آفتاب نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت چاہی اور نُکتہ اٹھایا کہ اراکین اسمبلی سے بجٹ تجاویز لیے بغیر یہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جو قانونی طور پر درست نہیں۔
سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کو غیر معمولی حالات کا سامنا رہا ہے اس لیے پراسیس کے کچھ حصے ختم کیے گئے ہیں۔
ایک اور اپوزیشن رکن ارقم خان نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے راجن پور میں دو نوجوانوں کو ڈاکوؤں نے اغوا کے بعد قتل کیا ہے ان کے آج جنازے ہیں۔ وزیراعلٰی مریم نواز کا ہیلی کاپٹر اور مرسڈیز گاڑی کے ٹائر بھی لگ چکے ہیں تو اس غریب علاقے کی داد رسی کی جائے جو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہے۔
سپیکر نے ایوان کی کاروائی آگے بڑھاتے ہوئے وزیر خزانہ میاں مجتبی شجاع الرحمن کو بجٹ تقریر کرنے کی دعوت دی۔
انہوں نے تقریر شروع کی تو اپوزیشن بینچوں پر مکمل خاموشی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے یہ کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی عوامی مینڈیٹ سے آئی حکومت اپنا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے‘ تو ایک دم سے اپوزیشن بینچوں سے نعرے لگنے شروع ہو گئے۔
اس شور شرابے میں ہی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر شروع کر دی۔ مریم اورنگزیب نے اسمبلی سٹاف کو ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ ہیڈ فون لے کر آئیں۔ مجتبی شجاع نے ہیڈ فون پہن کر تقریر جاری رکھی، البتہ جلد ہی انہوں نے ہیڈ فون اتار دیا۔ جس پر ان کی حوصلہ افزائی حکومتی بینچوں سے ڈیسک بجا کر کی گئی۔
اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلی سپیکر ڈیسک کے سامنے پہنچ کر احتجاج کرتے رہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سنی اتحاد کونسل کے اراکین سپیکر ڈیسک کے سامنے پہنچ کر احتجاج کر رہے تھے، زیادہ تر ’چور چور اور مریم کے پاپا چور‘ کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد حکومت اراکین بھی ان کے سامنے آ گئے اور مخالف میں ’قاسم کے پاپا چور‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اور ہاتھوں میں گھڑیاں بھی لہرانا شروع کر دیں۔
جب اپوزیشن اراکین کی آوازیں کم ہو جاتیں تو رانا آفتاب انہیں اور اونچے نعرے لگانے کے اشارے کرتے۔ لیکن حکومتی اراکین کی جانب سے ترکی بہ ترکی نعرے واپس آنے پر بالآخر اپوزیشن خاموش ہو گئی اور تقریر کی آواز ٹھیک طریقے سے سنائی دینے لگی۔
اس دوران مریم نواز اپنی نشست پر بیٹھی رہیں۔ تقریر مکمل ہونے پر سپیکر نے اجلاس 21 مارچ تک ملتوی کر دیا۔

شیئر: