کوئی چند ہزار کے عوض بڑی رقم انعام کی صورت میں لینے کا تمنائی اور اپنے چند ہزار سے محرومی پر دلبرداشتہ
* * * اُم مزمل۔جدہ* * * *
وہ سفر کی مسنون دعائیں پڑھ رہی تھی۔ اس کی والدہ کی تربیت بہترین تھی، یہی وجہ تھی کہ انہو ںنے اپنے بچوں کو دینی باتوں پر عمل کرنا سکھایا تھا۔ حتیٰ الامکان باوضو رہنے کی عادت اس نے اپنی والدہ سے ہی اپنائی تھی۔ گاؤں جانے والی بس مسافروں کے اصرار پر سحری کیلئے ایک ڈھابے پر روک دی گئی تھی۔ کھلی جگہ پر دو بڑی چوکیوں کے درمیان اونچی طویل میزیں لگا دی گئی تھیں۔ اسکے شوہر نے چائے پراٹھے کا آرڈر دے کر مسجد کا رخ کیا۔ وہ بھی شوہر کے ساتھ ہولی کہ دو رکعات نفل ادا کرلے گی پھر نسبتاً کم روشنی والی جگہ پر سحری کے طور پر گرما گرم پراٹھے، آلو کی بھجیا اور چائے نوش کی۔
سفر کے دوران اتنے اہتمام سے سحری ہو جانے پر وہ مالک حقیقی کی شکر گزا ر تھی۔ گاؤں جانے کا ارادہ کئی ماہ سے تھا لیکن اب والد کے حکم پرچند دنوں کے لئے پروگرام بن ہی گیا تھا۔ وہ بہت امیر نہیں تھے مگرانکا دل بہت غنی تھا۔ انہوں نے کمپنی سے اپنا کمیٹی کا معاملہ طے کررکھاتھا۔ اسکے پوچھنے پر ایک دفعہ اسکے والد اسے سمجھا رہے تھے کہ ہمارے گاؤں میں تقریباً پانچ ساڑھے پانچ ہزار گھرانے آباد ہیں۔ ان افراد میں سے کم از کم ڈھائی ہزار افراد ہر سال عمرہ و حج کرنے کی خواہش کے تحت اپنا نام لکھوا دیتے ہیں ۔
ہماری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ انہیں جتنی بھی ضرورت ہو، سفر کے اخراجات وغیرہ وہ پہلی کمیٹی کی صورت میں لے لیں اور پھر ہر ماہ ادائیگی کردیں جس طرح کمیٹی سسٹم میں ہوتا ہے۔ ا س طرح وہ لوگ عمرہ اور حج کی سعادت بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ کمیٹی ممبران اس پیسے کو قرض نہیں سمجھتے بلکہ ایسا سمجھتے ہیں کہ میری کمیٹی پہلی نکلی ہے پھر بعد میں دوسرے لوگوں کی نکل جائے گی۔ اس طرح انکی عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ وہ قریبی جگہ سے کچھ سرگوشیوں کی آواز سن رہی تھی۔ ایک شخص کی آواز سنائی دی ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ’’ تم سے پہلے ہی کہا تھا شریف آدمی بننے کی کوشش شروع کردو، رمضان کریم کا مہینہ آرہا ہے۔ہمیں پورے سال کی کمائی کرنی چاہئے جس طرح ٹی وی چینلز کررہے ہیں۔ دین کا نام لیکر دنیا کما رہے ہیں۔
وہ انتہائی پر خلوص انداز میںانتہائی معمولی رقم کے عوض لوگوں کوحج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے، ویزا وغیرہ لگواکر دینے کی پیشکش کرتے ہیں لیکن وہ لوگوں کو یہ بتانا ضروری خیال نہیں کرتے کہ ہم ایک کروڑ لوگوں کی جیب سے پیسے نکلواتے ہیں تو چند ایک کو لاکھوں کی رقم دے کر واہ واہ کروالیتے ہیں۔ فرض کریں، ایک کروڑ لوگوں نے فقط ایک روپیہ دیا ہو تو اس طرح ہمارے پاس پورے ایک کروڑ کی رقم جمع ہوسکتی ہے جبکہ ایک روپیہ تو کوئی چیز ہی نہیں گردانا جاتا ۔ کوئی پچاس سال پہلے اس کی اہمیت ہوتی ہوگی۔ اب تو کم ازکم ایک ہزار کا نوٹ ہر ایک فرد کی جیب سے باہر لے آؤ، سمجھو ایک کروڑ لوگوں نے دے دیا تو ایک ہزار کا نوٹ ایک کروڑ کی تعداد میں باکس میں جمع ہوجائے گا۔
اب تم خود ہی حساب لگاتے رہو کہ ایک ہزار کروڑ روپے کتنے ہوتے ہونگے جو تم نے تصور بھی نہ کئے ہونگے۔ دوسری آوازحیرت سے معمورتھی جو نسبتاً آہستگی سے اسکے کانوں تک پہنچی کہ ’’لیکن دوست یہ تو بتاؤ ان سب باتوں پر کہ لاٹری تو ہوتی ہی غلط ہے کہ اس میں بہت سارے لوگوں کو معمولی نقصا پہنچاکر دو ، تین افراد کو نواز دیا جاتا ہے۔ باقی اپنی جیبوں میں رکھ لیا جاتا ہے۔ ایک کروڑ لوگ ان کی باتوں سے بے وقوف کیسے بن سکتے ہیں؟ دوسرا خوب محظوظ ہوا اور کہا کہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہر مسلمان یہ بات جانتا ہے کہ رمضان کریم میں ہر ایک لمحہ کتناقیمتی ہوتا ہے۔
شب قدر میں ہزار راتوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے اور ہم لوگ کتنی معمولی چیزوں کے لئے رمضان کریم کی ساعتوں کو ضائع کررہے ہیں۔ اپنی اکثریت کی عاقبت نااندیشی پروہ رو پڑی۔ سچ ہے سوچ ہی اصل ہے۔ جو سوچا ہے وہ آسان ہے باقی تو فقط ہڈی اور گوشت کا ہی مرکب ہے۔ وہ اپنے گاؤں پہنچی تو وہاں کئی گھروں کے بچوں کو پہل دوج کھیلتے دیکھا۔ یہ تو ایک کھیل تھا کہ بچے شوق سے کھیل رہے تھے۔ اسے خیال آیا کہ یہی کھیل تو’’بڑوں‘‘ نے اپنے اپنے فائدوں کیلئے بڑے پیمانے پر پھیلا رکھاہے ۔
کوئی چند ہزار کے عوض بڑی رقم انعام کی صورت میں لینے کا تمنائی اور اپنے چند ہزار سے محرومی پر دلبرداشتہ ہے لیکن وہ بھی دراصل چھلانگ لگاکر دوسروں کوپیچھے چھوڑ کر شارٹ کٹ کھیل رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں اکثریت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند ایک کامیاب بنا دیئے جاتے ہیں تاکہ اوروں کو لالچ دلاکر جیب سے پیسے نکلوا سکیں۔ اس کھیل میں حصہ لینا کوئی فرض نہیں لیکن دین سے دوری نے لوگوں کی عقل پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم خود اپنی فکر سے بے نیاز ہوگئے توپھردوسروں کو کیا ضرورت کہ وہ ہمیں آخرت کے بارے میں خبردار کریں۔