Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کڑوے معاشی فیصلوں کا بوجھ ان پر پڑے گا جو اٹھا سکیں: وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے مشکل اور کڑوے فیصلے کرنا ہوں گے لیکن ان کا بوجھ ان پر پڑے گا جو اس کو اٹھا سکیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے واضح کیا کہ غریب تو پہلے ہی مہنگائی میں پسے ہوئے ہیں، اس لیے ان پر مشکل فیصلوں کا بوجھ نہیں پڑنے دیا جائے گا۔
وزیراعظم نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایلیٹ کلاس کو مراعات ملتی رہیں اور غریب کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ایسے مزید معاہدے کی ضرورت ہو گی جس کا دورانیہ تین سال تک ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول ’اگر ساڑھے 13 سو ارب روپے آ جائیں تو ہم کشکول توڑ سکتے ہیں۔‘
وزیراعظم نے اپنی پچھلی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سولہ ماہ کی حکومت کے لیے فوج نے بہت تعاون کیا جس پر شکرگزار ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ریاست بچانے کے لیے بڑی سیاسی قربانی دی۔
انہوں نے امریکہ سمیت دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے سفیروں سے ملاقات میں یہی کہا کہ ہمیں قرضوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے ملک میں سرمایہ کریں۔ حکومت ان کو تمام ضروری سہولتیں مہیا کرے گی۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظمنے کہا کہ ’بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ سالانہ تین سے چار ٹریلین روپے کے محصولات ضائع ہو رہے ہیں۔ 2700 ارب روپے کے محصولات سے متعلق مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ بجلی اور گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ پانچ کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کے معاہدہ کے بعد آئندہ ماہ 1.10 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی۔‘
اجلاس میں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی موجود تھے۔
بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’وزیراعظم نے کہا کہ سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ عبوری حکومت کے دور میں انہوں نے بڑی ذمہ داری اور محنت سے کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے جس طرح ہماری 16 ماہ کی حکومت کے دوران بھرپور تعاون اور مدد کی۔ اسی طرح نگراں حکومت کے دور میں بھی قومی مفاد میں تعاون کا مظاہرہ کیا جو مثالی ہے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’ایس آئی ایف سی کے قیام میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جو کام پہلے کسی نے نہیں کیا اس کے لیے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔‘
ایس آئی ایف سی کیا ہے؟
پی ڈی ایم کے دور حکومت میں جون 2023 میں وفاقی حکومت نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا۔ جسے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ کا نام دیا گیا۔
اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔
اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں۔ آرمی چیف کو خصوصی دعوت پر اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آرمی چیف اس کونسل میں کیا کردار ادا کریں گے۔
ایپکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، آئی ٹی، توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پیٹرولیم اور امور خزانہ شامل ہیں۔
ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، امور خزانہ، منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکریٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔
تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں پاکستان فوج کے ایک ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکریٹری، جو 21ویں گریڈ کے افسر ہوں گے، شامل ہیں۔

شیئر: