Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وکیلوں کی جماعت تحریک انصاف: اہم چہرے کون ہیں؟

نو مئی 2023 کے بعد کریک ڈاؤن کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کئی صف اول کے رہنما پارٹی چھوڑ گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ سنہ 1996کی بات ہے۔ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ملک بھر سے ایسے لوگوں نے اس میں شامل ہونا شروع کیا جو اس سے پہلے سیاست سے لاتعلق تھے یا سیاسی دلچسپی رکھتے تھے لیکن پہلے سے موجود جماعتوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی پرانی سیاسی جماعتوں اور بڑے سیاست دانوں کے خلاف ایجنڈے پر رکھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت پہلے سے سیاسی میدان میں موجود لوگ ایک کرکٹر کی نوزائیدہ جماعت میں شامل ہونے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔
لہٰذا ملک بھر سے سماجی کارکنوں، صحافیوں اور وکیلوں نے نئی جماعت میں اپنے لیے شاندار مستقبل کے امکانات تلاشنے شروع کیے اور ہر ضلعے سے یہ لوگ تحریک انصاف کا حصہ بننے لگے۔
عمران خان کی مرکزی ٹیم میں بھی ایسے ہی شعبوں سے لوگ موجود تھے۔ پھر جب پارٹی پہلے انتخابات میں ناکام ہو گئی۔
پھر آنے والے برسوں میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سماجی شعبوں سے آنے والے یہ لوگ پارٹی چھوڑنا اور دوسری جماعتوں میں جانا یا سیاست ترک کرنا شروع ہو گئے۔ یوں پی ٹی آئی کی شکل تبدیل ہوتی رہی۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب 2011 کے مینار پاکستان جلسے کے بعد کئی نامی گرامی الیکٹیبلز بھی تحریک انصاف کا حصہ بنے۔
لیکن 9 مئی 2023 کے بعد تحریک انصاف کی شکل ہی تبدیل ہو گئی جب اس کے خلاف شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اس کے کئی صف اول اور دوم کے رہنما پارٹی چھوڑ گئے۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ اس کا الیکشن تک لڑنا مشکل ہو گیا۔
ایسے میں عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ 2024 کے انتخابات کے لیے زیادہ تر ٹکٹ وکلا کو دیں گے کیونکہ وکلا کے گرفتار ہونے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
عمران خان کے اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی میں وکلا عملی طور پر آگے آ گئے اور نہ صرف انتخابات میں بڑی تعداد میں جیت کر آئے بلکہ عدالتوں اور میڈیا میں بھی تحریک انصاف کا چہرہ بن کر ابھرے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے سب سے زیادہ وکیل رہنماؤں والی جماعت بن گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وکلا ماضی میں سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے، بلکہ ہر سیاسی جماعت فطری طور پر بڑے وکیلوں کو ساتھ رکھتی تھی کیونکہ آئینی اور قانونی معاملات میں ان کی رہنمائی لازم تھی۔
بالخصوص اعتزاز احسن، وسیم سجاد، بابر اعوان اور فاروق ایچ نائیک جیسے وکیل دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا چہرہ تھے۔
لیکن حالیہ مہینوں میں وکلا جس تعداد میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئے ہیں، اس سے گمان ہوتا ہے کہ اس جماعت میں یہ کسی بھی دوسرے شعبے سے زیادہ ہیں۔
ان میں معروف وکلا سے لے کر ایک یونین کونسل سطح کے رہنما تک شامل ہیں۔
حامد خان
حامد خان کا شمار پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کے داخلی اتار چڑھاؤ اور عمران خان سے تعلقات کی بدلتی نوعیت کے باوجود پہلے روز سے اس کا حصہ ہیں اور آئینی و قانونی امور میں پارٹی کی رہنمائی کرتے ہیں۔ 
وہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے بھی سرخیل ہیں اور سپریم کورٹ میں پارٹی کے بیش تر مقدمات وہی لڑتے ہیں۔

حامد خان نے پیشکش کے باوجود پارٹی کی سربراہی قبول نہیں کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے پارٹی کے اندر ہونے والی ’پاور پالیٹکس‘ سے بھی خود کو فاصلے پر رکھا ہے اور حال ہی میں جب عمران خان کو پارٹی قیادت سے نااہل کر دیا گیا تو انہوں نے پیشکش کے باوجود پارٹی کی سربراہی قبول نہیں کی۔ 
حامد خان پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔ 
بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر مرحوم سینیئر سیاست دان ایس ایم ظفر کے بیٹے ہیں۔ ایس ایم ظفر ایک طویل عرصے تک مسلم لیگ کے رکن رہے اور متعدد بار سینیٹر بھی بنے۔ 
بیرسٹر علی ظفر بھی اہم مقدمات میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں بھی عمران خان نے ان کی عدم موجودگی میں پارٹی چیئرمین بننے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ چیئرمین کا عہدہ لینے کے بعد یہ ذمہ داری ان کے پیشہ ورانہ کام سے متصادم ہو گی۔

بیرسٹر علی ظفر مرحوم سینیئر سیاست دان ایس ایم ظفر کے بیٹے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف کا سپریم کورٹ انٹراپارٹی الیکشن کیس جس میں بلے کا نشان چھن گیا تھا، وہ بھی بیرسٹر علی ظفر نے بیرسٹر گوہر علی خان کے ساتھ مل کر لڑا تھا۔ 
بیرسٹر علی ظفر پارٹی کے سینیٹر بھی ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کا وکلا ونگ انصاف لائرز فورم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بیرسٹر گوہر علی خان
بیرسٹر گوہر علی خان جن کو عمران خان کے جیل جانے کے بعد دو مرتبہ پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر منتخب کیا گیا ہے، باضابطہ طور پر 2022 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔
تاہم اس سے قبل وہ ایک وکیل کے طور پر پی ٹی آئی سے منسلک رہے۔

یرسٹر گوہر علی خان کو عمران خان کے جیل جانے کے بعد پارٹی چیئرمین منتخب کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیرسٹر گوہر اعتزاز احسن کے معاون ہیں اور انہی کے ساتھ انہوں نے وکالت اور سیاست کے رموز سیکھے۔ 
انہوں نے 2013 میں بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
شیر افضل مروت
شیرافضل مروت ستمبر 2023 سے قبل زیادہ معروف نہیں تھے۔ تاہم ایک ٹیلی وژن شو کے دوران مسلم لیگ نواز کے سینیٹر افنان اللہ خان کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد نہ صرف یہ کہ یہ جانی پہچانی شخصیت بن گئے بلکہ عمران خان کے بھی قریب ہو گئے۔
اس لڑائی کے بعد مختلف فورمز اور ٹاک شوز میں گفتگو کے دوران ان کی برجستہ اور دلچسپ جملے بازی نے انہیں پی ٹی آئی کے نوجوان سپورٹرز میں مقبول بنا دیا ہے۔

دلچسپ جملے بازی نے شیر افضل مروت کو  پی ٹی آئی کے نوجوان سپورٹرز میں مقبول بنا دیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

شیر افضل مروت نے اپنے کیرئر کا آغاز ایک سرکاری محکمے کے وکیل کے طور پر کیا اور بعد ازاں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ سوسائٹی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
یہ ایک پیشہ ور وکیل کے طور پر پی ٹی آئی کے قریب ہوئے اور پھر عمران خان کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہو گئے۔
اب ان کا نام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
شعیب شاہین
شعیب شاہین ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے نو مئی 2023 کے بعد اس وقت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جب اس کے بہت سارے لوگ پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے اور اس کی مذمت کر رہے تھے۔

شعیب شاہین نو مئی کے واقعے کے بعد یہ پارٹی کا باقاعدہ حصہ بن گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شعیب شاہین ابتدا میں پی ٹی آئی کے مقدمات لڑ رہے تھے تاہم نو مئی کے واقعے کے بعد یہ پارٹی کا باقاعدہ حصہ بن گئے اور عمران خان نے انہیں ترجمان مقرر کر دیا۔
انہوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا دفاع کیا اور پارٹی کے ٹکٹ پر اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں بھی حصہ لیا۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق وہ انتخاب ہار گئے لیکن شعیب شاہین کا دعوٰی ہے کہ وہ فارم 45 کے تحت جیتے ہوئے امیدوار ہیں۔
سلمان اکرم راجہ
سپریم کورٹ کے معروف وکیل سلمان اکرم راجہ بھی ابتدا میں بطور وکیل تحریک انصاف کے ساتھ منسلک ہوئے لیکن بعد میں اس کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا۔

سلمان اکرم راجہ متعدد بار مختصر دورانیے کے لیے گرفتار ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کو تحریک استحکام پاکستان کے عون چوہدری کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے تاہم ان کا بھی دعوٰی ہے کہ فارم 45 کے تحت وہ فاتح ہیں۔
بیرسٹر سلمان راجہ اب تحریک انصاف کے ہر احتجاج میں شامل ہوتے ہیں اور متعدد بار مختصر دورانیے کے لیے گرفتار ہو چکے ہیں۔
لطیف کھوسہ
لطیف کھوسہ جو ماضی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور آصف زرداری کے انتہائی قریب رہ چکے ہیں، رواں سال کے انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اور اس کے ٹکٹ پر لاہور سے خواجہ سعد رفیق کو الیکشن میں ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔

لطیف کھوسہ خواجہ سعد رفیق کو الیکشن میں ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

لطیف کھوسہ بھی آغاز میں بطور وکیل پی ٹی آئی کے مقدمات میں پیش ہوتے تھے اور بعد میں ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر

سلمان صفدر پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے اہم ترین اراکین میں سے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

معروف وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیش تر مقدمات میں پیش ہو رہے ہیں۔
یہ بھی اس وقت پارٹی کا باقاعدہ حصہ ہیں اور اس کی قانونی ٹیم کے اہم ترین اراکین میں سے ہیں۔ 
بابر اعوان

ڈاکٹر بابر اعوان بھی اب پی ٹی آئی کا حصہ اور اس کی قانونی ٹیم کے رکن ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کے قریب رہنے والے اور ان کے مقدمات لڑنے والے ڈاکٹر بابر اعوان بھی اب پی ٹی آئی کا حصہ اور اس کی قانونی ٹیم کے رکن ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ پی ٹی آئی کے مرکزی وکیل ہوتے تھے تاہم اب یہ کسی حد تک پس منظر میں ہیں۔
نعیم پنجوتھہ اور انتظار پنجوتھہ 
نعیم اور انتظار پنجوتھہ پی ٹی آئی میں پنجوتھہ برادرز کے طور پر جانے جاتے ہیں اور پارٹی کے پرجوش وکیل ہیں۔ یہ اس وقت پی ٹی آئی کے کئی مقدمات کی مکمل ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔

نعیم اور انتظار پنجوتھہ پی ٹی آئی کے پرجوش وکیل ہیں (فائل فوٹو: ایکس، نعیم پنجوتھہ)

اس کے علاوہ بھی پاکستان کی تقریباً تمام بارز اور مقامی وکیل تنظیموں کے ہزاروں اراکین پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور ملک کے طول و عرض میں اس کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔

شیئر: