Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شرمناک بے حسی

طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کے لئے گھڑیالی آنسو بہانے والے لوگوں کا ضمیر جیور میں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین پر بیدار کیوں نہیں ہورہا
* * * * معصوم مرادآبادی* * * *
جیور اجتماعی آبروریزی اور قتل کا شکار ہونے والے خاندان کا المیہ روزبروز سنگین ہوتا چلا جارہا ہے۔ خواتین کی عزت وآبرو کی حفاظت کا دم بھرنے والے معاشرے پر سکوت طاری ہے اور کوئی بھی ان خواتین کے حق میں آواز بلند کرنے کو تیار نہیں جنہوں نے گزشتہ 25 مئی کی تاریک ترین رات میں مسلح بدمعاشوں کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ اپنی عزت وآبرو گنوادی تھی بلکہ اپنے خاندان کے ایک شخص سے بھی ہاتھ دھو لیا تھا۔ اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی3 خواتین نے گزشتہ روز خودکشی کی کوشش کی تاکہ معاشرے کا ضمیر جاگ اٹھے اور ان کے ساتھ ظلم کا مظاہرہ کرنے والے وحشی درندوں کو گرفتار کرکے وہی سلوک کیاجائے جو نربھیا کے مجرموں کے ساتھ کیاگیا ہے لیکن بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ دوہفتے گزرنے کے بعد بھی پولیس ابھی تک ان مجرموں کی نشاندہی نہیں کرسکی جنہوں نے یمنا ایکسپریس وے پر یہ خوفناک اور گھناؤنی واردات انجام دی تھی۔ آپ کو یادہوگا کہ گزشتہ سال اسی یمنا ایکسپریس وے کے قریب بلند شہر میں ایک خاندان کے ساتھ اسی قسم کی واردات ہوئی تھی تو سب نے آسمان سرپر اٹھالیا تھا اور سب سے زیادہ شور بی جے پی لیڈرا ن نے مچایا تھا کہ اترپردیش میں بہن، بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں ۔
یہاں تک کہ اس معاملے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی حرکت میں آگئی تھی لیکن جیور اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین روز اول سے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں کہ ڈاکوؤں نے ان کی عزت لوٹی ہے لیکن انتظامیہ اس بیان کو مسلسل جھٹلا رہی ہے کیونکہ سرکاری میڈیکل رپورٹ میں اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سرکاری سطح پر میڈیکل رپورٹیں کیسے تیار ہوتی ہیں اور انہیں کس انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کیاجاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین نے جب عدالت میں اپنی بپتا بیان کی تو معاملہ کی سماعت کررہے جج بھی حیران رہ گئے۔
متاثرہ خواتین نے اس رپورٹ کو قطعی خارج کردیا جس میں آبروریزی سے انکار کیاگیا تھا۔ انہوں نے فاضل جج کو مخاطب کرکے کہاکہ ہماری آبروریزی کی گئی ہے۔ متاثرہ خواتین نے کہاکہ بدمعاش اتنے بے خوف تھے کہ پولیس کی موجودگی میں سارے بدمعاش پیدل ہی وہاں سے بھاگے اور پولیس نے ان کا تعاقب کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔
متاثرہ خواتین نے اپنے بیان میں اس رات کی حیوانیت کا درد بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ بدمعاشوں نے ان کے ساتھ بدکاری بھی کی تھی۔ خواتین نے بتایا کہ جب وہ سراٹھاتی تھیں تو بدمعاش ان کے سرپہ لاتیں مارتے تھے اور خواتین کی کنپٹی پر پستول تان کر کہاتھا کہ سر اوپر مت اٹھانا۔ ایک متاثرہ نے بتایاکہ ایک بدمعاش نے کارتوسوں سے بھری بیلٹ باندھ رکھی تھی۔ اتنی تفصیلات بیان کرنے کے باوجود ضلع انتظامیہ کو ابھی تک اس کا یقین نہیں آیاکہ یہ بدنصیب خواتین سچ بول رہی ہیں کیونکہ پولیس اور انتظامیہ ہی نہیں بلکہ حکومت کی عقل پر بھی پر دے پڑگئے ہیں۔ ان بدنصیب عورتو ں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسے فرقے سے تعلق رکھتی ہیں جن کے ساتھ اس ملک میں ہونے والا بڑے سے بڑا ظلم اور درندگی بھی ارباب اقتدار کو بیدار نہیں کرتی بلکہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش پولیس اور انتظامیہ مجرموں کو پکڑنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے پورے معاملے کی لیپا پوتی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
جس روز یہ انتہائی سنگین اور شرمناک واردات ہوئی تھی، اس کے اگلے روز میڈیا نے اسے خوب کوریج دی تھی۔ اخبارات کے پورے پورے صفحے بھر ے ہوئے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ معاملہ بہت آگے تک جائے گا لیکن اس کے اگلے ہی روز چیف میڈیکل افسر نے یہ’’ انکشاف‘‘ کرکے پورے کیس کی ہوا نکال دی کہ جیور میں خواتین کی آبروریزی کی تصدیق نہیں ہوئی ۔ اس انکشاف کے بعد پولیس کے ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے پڑگئے اور حکومت بھی خاموش ہوگئی۔ اس کے اگلے روز مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے شیہ بیان دیا کہ میڈیا آبروریزی کی وارداتوں کو غیر ضروری طورپر طول دے رہا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ یہ وہی مینکا گاندھی ہیں جنہوں نے نربھیا معاملے میں بہت بڑھ چڑھ کر بیان دیئے تھے اور ان کی پارٹی نے اس پر اتنا شور مچایا تھا کہ یوپی اے سرکار اس شور میں اقتدار سے محروم ہوگئی لیکن اب جب ملک کے کئی حصوں بالخصوص یوپی اور دہلی میں اجتماعی آبروریزی کی وارداتیں مسلسل ہورہی ہیں تو سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین کو تعصب کی عینک سے دیکھ کر اپنا ردعمل ظاہر کرنے والے لوگ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ آخر طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کے لئے گھڑیالی آنسو بہانے والے لوگوں کا ضمیر جیور میں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین پر بیدار کیوں نہیں ہورہا اور وہ مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں؟

شیئر: