Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل، خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست واپس لینے کی استدعا

وکیل کے پی حکومت نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل واپسی لینے کی استدعا کر دی ہے، تاہم سپریم کورٹ نے استدعا واپس لینے کے طریقہ کو غلط قرار دیتے ہوئے باضابطہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سوموار کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت کے پی حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی اور اس حوالے سے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کر دی۔
وکیل کے پی حکومت نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔ 
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دیا تو چاروں صوبوں نے اُس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ 
 جس پر آج چھ رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل عثمان خیل کا ایک خط عدالت میں پیش کیا جس پر چھ رکنی بینچ نے یہ کہہ کر خط واپس کر دیا کہ اسے درست طریقہ کار کے مطابق عدالت میں دائر کیا جائے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس میں زیر حراست 103افراد کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سماعت شروع ہوئی تو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ چھ رکنی لارجر بینچ پر اعتراض ہے۔
انہوں نے کہا کہ 103 ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔
اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بیٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔
بعد ازاں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی متفرق درخواست میں بھی 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی۔ عدالت سے استدعا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کمیٹی سے گزارش کرے کہ 9 رکنی بینچ بنایا جائے۔
بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے تفصیلات طلب کر لیں کہ زیر حراست 103 افراد میں سے کتنے افراد کی بریت بنتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن عدالت نے حتمی فیصلے سے روکا تھا۔
اس کے بعد عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 مارچ جمعرات تک کے لیے ملتوی کر دی۔

شیئر: