لیبارٹری سے جیون ساتھی بننے تک، سائنس میں نوبیل لینے والے جوڑوں کی کہانی
لیبارٹری سے جیون ساتھی بننے تک، سائنس میں نوبیل لینے والے جوڑوں کی کہانی
ہفتہ 13 اپریل 2024 7:02
علی عباس۔ لاہور
سائنس اور طب کے میدان میں نوبیل جیتنے والے جوڑوں میں کیوری سمیت دوسرے کپلز بھی شامل ہیں (فوٹو: نوبیل)
یہ دنیا کے کچھ ایسے سائنس دانوں اور طبی ماہرین کی کامیابیوں کی حیران کن داستان ہے جن کی جستجو، کچھ نیا دریافت کرنے کا جنون اور محبت آپس میں یوں خلط ملط ہو گئے کہ تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
یہ ان محبت کرنے والے جوڑوں کی کہانی ہے، جنہوں نے مشترکہ طور پر نوبیل انعام حاصل کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
یہ ان کامیاب جوڑوں کی کہانی ہے جنہوں نے مل کر انسانیت کے لیے ترقی کے نئے در وا کیے۔ انہوں نے اس دنیا سے کچھ لیا نہیں بلکہ اپنی دریافتوں کے ذریعے ایسے سنگ میل عبور کیے جنہیں پاٹنا آسان نہیں تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان جوڑوں کی کہانی پیش خدمت ہے:
اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب پولش طالبہ ماریا سکوڈوسکا سال 1891 میں پولینڈ سے فرانس منتقل ہوئیں اور پیرس کی سوربون یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ان کا یہیں پر اپنے پروفیسر کے توسط سے پیری کیوری سے پہلی بار تعارف ہوا۔
برطانوی چیریٹی میری کیوری کے مطابق، پیری سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں یاد کرتے ہوئے میری کہتی ہیں، ‘میں جب کمرے میں داخل ہوئی تو پیری کیوری بالکونی کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے تھے۔ وہ نوجوان معلوم ہو رہے تھے تاہم اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔’
ایک سال بھی نہ بیتا ہو گا کہ پیری نے میری سے اظہار محبت کرتے ہوئے شادی کی پیشکش کر دی۔ اس وقت تو میری نے یہ پیشکش قبول نہ کی کیوں کہ وہ واپس پولینڈ جانے اور کام ڈھونڈنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
قسمت نے ان کے لیے مگر کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ میری کو خاتون ہونے کی وجہ سے کسی پولش یونیورسٹی میں کام نہ مل سکا تو پیری نے ان کو پیرس واپس آنے پر رضامند کر ہی لیا۔
26 جولائی 1895 کو میری اور پیری ایک ہو گئے لیکن شادی کے روز میری نے دلہنوں کے لیے مخصوص گائون زیب تن نہیں کیا بلکہ گہرے نیلے رنگ کا لباس پہنا۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میرے پاس اس کے علاوہ کوئی لباس نہ تھا جو میں روز زیب تن کیا کرتی تھی۔‘
کیوری جوڑے نے ہنی مون کے لیے بائی سائیکل پر فرانسیسی دیہی علاقوں کی سیاحت کی۔
چند ہی برس بعد 1903 میں جوڑے کو طبیعات میں ہنری بیکوئرل کے ساتھ ریڈی ایشن پر مشترکہ تحقیق کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ابتدا میں میری کو طبیعات میں اس نوبیل انعام کے لیے نامزد نہیں کیا گیا تھا۔
پیری کو مگر جب اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے شکایت کی اور یوں میری کا نام بھی نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا اور یوں وہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بن گئیں۔
دونوں کی محبت کا دردناک انجام ہوا جب اپریل 1906 میں پیری ایک حادثے میں جان سے گزر گئے۔ میری کے لیے یہ جاں گسل صدمہ برداشت کرنا آسان نہیں تھا لیکن وہ اپنے شوہر کے نام پر کچھ ایسا کرنا چاہتی تھیں جس سے انسانیت کا بھی بھلا ہوتا اور ان کی اپنے شوہر سے محبت کا اظہار بھی ہوتا۔
وہ اسی برس مئی میں اپنے شوہر کی جگہ پر سوربون یونیورسٹی میں پروفیسر تعینات کر دی گئیں۔ انہوں نے اپنے آنجہانی شوہر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک عالمی معیار کی لیبارٹری بنوائی جب کہ وہ یونیورسٹی کی اولین خاتون پروفیسر کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
آئرن جولیٹ کیوری اور فریڈرک جولیٹ
آئرن اور فریڈرک کا ساتھ صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ لیبارٹری میں بھی شریک سفر تھے۔ دونوں کو ریڈیوایکٹو آئسوٹاپس تخلیق کرنے پر کیمیا کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ان کی اس دریافت کے باعث ریڈیو ایکٹو ایٹمز نسبتاً کم خرچ میں تیار کرنا ممکن ہو گیا جس نے جوہری طبعیات اور طب میں ترقی کے نئے در وا کیے۔
آئرن جولیٹ کیوری، پیری اور میری کیوری کی صاحب زادی تھیں اور وہ کم عمری میں ہی اپنی والدہ کے ساتھ سائنسی تجربات میں شریک ہونے لگی تھیں۔
1935 میں جب جوڑے کو کیمیا میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تو اس موقع پر نوبیل پرائز کمیٹی نے ان کی اس تحقیق اور اس کے نتائج کو انسانیت کے لیے اہم قرار دیا۔
جولیٹ اور کیوری کا ایک بیٹا پیری اور بیٹی ہیلن ہوئیں اور ان دونوں نے بھی سائنس میں نام کمایا اور یوں سائنس کے میدان میں مشہور کیوری خاندان کا سفر تیسری نسل کو منتقل ہوا۔
آئرن اور جولیٹ پیرس میں دو سال کے وقفے سے چل بسے۔
کارل فرڈیننڈ کوری اور گرٹی تھریسا کوری
کارل اور گرٹی سائنس کی تاریخ کے عظیم ترین نام ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کاربوہائیڈریٹس اور جسم کے کچھ مخصوص کاربوہائیڈریٹس کو توڑنے اور کچھ کو جوڑنے کے لیے ہونے والے کیمیائی عمل پر تحقیق کی۔
انہوں نے شوگر کے نام سے جانے جانے والے کاربوہائیڈریٹس پر خاص توجہ مرکوز کی۔ کارل اور گرٹی نے اس کے علاوہ ‘کوری ایسٹر’ دریافت کیا جو گلائیکوجن کا ہی حصہ ہے(جس سے چینی پٹھوں میں محفوظ ہوتی ہے) اور ٹیسٹ ٹیوب میں اس عمل کو ریورس کیا اور یوں دوبارہ گلائیکوجن بنانے کے قابل ہوئے۔
گرٹی کا تعلق اس وقت آسٹرین ہنگرین سلطنت کے شہر پراگ سے تھا اور وہ ایک یہودی بزنس مین کی صاحب زادی تھیں۔ انہوں نے 10 سال کی عمر تک تو گھر میں ہی تعلیم حاصل کی جس کے بعد ان کا لڑکیوں کے ایک سکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔ اس وقت تک یورپ میں لڑکیوں کے سکول بہت زیادہ نہیں تھے اور جو تھے وہ لڑکیوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے کی بجائے ان کو ایک تہذیب یافتہ عورت بنانے پر توجہ دیتے تھے۔
گرٹی نے تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے جرمن یونیورسٹی آف پراگ کے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور پہلے ہی سیمسٹر میں باتونی گرٹی کی ملاقات خاموش طبع کارل کوری سے ہوئی۔ دونوں اگرچہ ہم مزاج نہیں تھے لیکن اپنے کیریئر کے حوالے سے ان کا جنوں ایک سا تھا کیوں کہ وہ دونوں ہی طب کے شعبہ میں تحقیق کرنے کے خواہاں تھے۔
دونوں کے کچھ مشاغل بھی ایک سے تھے جیسا کہ دونوں ہی ہائیکنگ کرنا، پہاڑوں پر چڑھنا اور باغبانی کرنا پسند کرتے تھے۔
یوں ان دونوں میں محبت پروان چڑھنے لگی اور وہ دور طالب علمی میں ہی ایک ساتھ تحقیق کرنے لگے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو کارل کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آسٹرین فوج میں بھرتی ہونا پڑا لیکن وہ وقت پر گریجویشن کرنے میں کامیاب رہے۔ ان دونوں نے 1920 میں طب میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔
دونوں پہلی جنگ عظیم کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرتے بالآخر امریکا منتقل ہو گئے۔ کارل کو جلد ہی واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر اور گرٹی کو ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر ملازمت مل گئی جب کہ دونوں کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ ایک سا تھا۔
سال 1943 میں گرٹی کو فیکلٹی کے رُکن کے طور پر ترقی ملی اور وہ 1947 میں پروفیسر بن گئیں۔ یہ ان کی زندگی کا وہ یادگار سال تھا جب ان دونوں کو مشترکہ طور پر طب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ گرٹی چوں کہ اس وقت تک امریکی شہریت حاصل کر چکی تھیں جس کے باعث وہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی پہلی امریکی خاتون قرار پائیں۔
کارل نے نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے اپنی دریافت میں اپنی بیوی کے کردار کی بھرپور ستائش کی۔
ایڈورڈ آئی موزر اور مے پرٹ موزر
ایڈورڈ اور مے برٹ کو یونیورسٹی کے دنوں سے ہی بہ ظاہر ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل تھا لیکن جب ان کو نوبیل انعام دیے جانے کی اطلاع دی گئی تو ان دونوں کے درمیان سینکڑوں میل کا فاصلہ حائل تھا۔
51 برس کی مے برٹ موزر اس وقت سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک میٹنگ میں مصروف تھیں جب انہوں نے اپنے موبائل پر آ رہی کال وصول کی۔ یہ کال ان کو سویڈش نوبیل انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے یہ بتانے کے لیے کی جا رہی تھی کہ ایڈورڈ اور ان کو نوبیل انعام دینے کے لیے منتخب کیا جا چکا ہے۔
مے برٹ کے شوہر ایڈورڈ، جو عمر میں ان سے ایک برس ہی بڑے ہیں، جہاز پر سوار جرمنی جا رہے تھے۔ وہ اس وقت اس حقیقت سے انجان رہے کہ وہ نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں تاوقتیکہ ان کو ہوائی اڈے کے ایک نمائندے نے اس بارے میں آگاہ نہیں کر دیا۔
وہ میری اور پیری کے نوبیل انعام حاصل کرنے کے ایک صدی گزر جانے کے بعد پانچواں ایسا جوڑا تھا جسے مشترکہ طور پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
وہ دونوں ایک ہی سکول میں پڑھے۔ دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور یہیں پر ان میں محبت کا رشتہ استوار ہوئی اور انہوں نے تب ہی نیوروسائنسز میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کی تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ کچھ مخصوص اعصابی خلیے جانوروں کے رویے کی تشکیل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں جسے انسانی جی پی ایس کے نام سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے۔
موزر جوڑے کو سال 2014 میں طب کے شعبہ میں یہ نوبیل انعام امریکی نژاد برطانوی نیورو سائنسٹسٹ جان او کیف کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا جنہیں ایڈورڈ ایک ‘حیران کن استاد’ قرار دیتے ہیں۔
مے برٹ نے نوبیل انعام ملنے کے حوالے سے کہا، ‘حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نوبیل انعام کے لیے اپنی نامزدگی کے بارے میں جان چکے تھے لیکن ہم اس انعام کے لیے فی الحال بہت کم عمر تھے کیوں کہ نوبیل انعام یافتگان کی اوسط عمر 58 سال رہی ہے۔’
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ موزر جوڑے نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی، ایک ہی لیبارٹری میں تحقیق کی اور پھر ایک ہی ساتھ نوبیل انعام حاصل کیا۔
سائنس اور طب سے ہٹ کر معاشیات کے شعبہ میں بھی دو جوڑے نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں، یوں مجموعی طور پر نوبیل انعام حاصل کرنے والے جوڑوں کی تعداد چھ ہے جو ایک دوسرے کو ‘برداشت’ کرنے پر یقیناً داد کے مستحق ہیں۔