Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شمس الرحمان فاروقی کی کہانی، محمود الحسن کی زبانی

2009 میں شمس الرحمن فاروقی کو انڈین حکومت نے پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔ (فوٹو: دی وائر)
ہر داستان میں حیرتوں کے سلسلے پنہاں ہوتے ہیں، مگر کہانی وہی امر ہوتی ہے، جو ایک باصلاحیت داستان گو تک پہنچ جائے، اور وہ اُسے اپنے منفرد آہنگ، اپنے اسلوب میں بیان کر ڈالے۔
معروف صحافی اور انٹرویو نگار، محمود الحسن کے قلم سے نکلی ’شمس الرحمان فاروقی: جس کی تھی بات بات میں اک بات‘ ایسی ہی ایک کتاب ہے، جس کے اوراق میں وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو کے ایک قد آور نقاد، فکشن نگار اور دانشور کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
فاروقی صاحب کی کارناموں کی تفصیل طویل، ان سے واقفیت کے لیے راقم الحروف کی تجویز تو یہی ہے کہ قاری کتاب سے رجوع کرے۔ البتہ مصنف کے بارے میں کچھ  گفتگو لازم ہے۔ میں اور محمود الحسن نہ صرف ہم عصر ہیں، بلکہ ہم عمر ہیں۔ ہم ایک ہی زمانے میں، ایک ہی ادارے سے منسلک رہے۔ گو شہر الگ تھے، مگر ڈیپارٹمنٹ ایک۔ یعنی اردو کے ایک معروف روزنامے کا میگزین سیکشن۔ اور یہ کتاب بھی اسی میگزین کے لیے ہونے والے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
ہمارے ایڈیٹر ممتاز صحافی، احفاظ الرحمان صاحب تھے، جو جتنے شفیق تھے، اتنے ہی سخت مزاج۔ اور ہم دونوں اُن کی توجہ کا خاص محور رہے۔ پھر ہمیں انٹرویو کرنے کے لیے ایک جیسے لوگ میسر تھے۔ وہی نقاد، وہی قلم کار، وہی شاعر۔ تصادم کے خطرے کے پیش نظر ہم اپنے اپنے شہروں کے قلم کاروں تک محدود رہنے کی کوشش کرتے، مگر جب کوئی ادیب بیرون ملک سے آتا، تو بڑی الجھن ہوتی۔ ایسا ہی ایک واقعہ پیش خدمت ہے:
یہ سال 2014 کی بات ہے۔ اردو کے باکمال مترجم، محمد عمر میمن جب امریکہ سے آئے تو پہلے لاہور میں قیام کیا اور پھر کراچی پہنچے۔ ہم نے ان کے انٹرویو کا ارادہ باندھا اور تیاری میں جٹ گئے۔ محمود الحسن سے فون پر ذکر کیا تو انھوں نے یہ خبر دے کر ہمیں صدمے سے دوچار کر دیا کہ وہ پہلے ہی لاہور میں اُن کا انٹرویو کر چکے ہیں جو اسی ہفتے شائع ہو گا۔
اس انٹرویو کی کاپی بعد ازاں ہم ہی نے محمد عمر میمن تک پہنچائی۔ اس روز معروف فکشن نگار محمد امین الدین کے گھر ایک نشست تھی۔ محمد عمر میمن غصے کے تیز تھے۔ جلد ناراض ہو جاتے۔ دو ڈھائی گھنٹے عمر میمن کہتے رہے، اور ہم سب سنتے رہے۔ 
معروف مترجم اور ادبی جریدے’آج‘ کے ایڈیٹر اجمل کمال صاحب کراچی میں مقیم تھے۔ ایک روز ہم نے انٹرویو کی درخواست کی تو انھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ سال میں صرف ایک انٹرویو دیتے ہیں۔ چند ماہ بعد وہ لاہور گئے تو محمود الحسن نے ان کا انٹرویو کر ڈالا۔ گویا وہ ایک بار پھر بازی لے گئے۔

شمس الرحمان بیٹی اور نواسیوں کے ہمراہ (فوٹو: دی منٹ)

اب کتاب کا رخ کرتے ہیں۔ کتابی تجزیے کے دنیا بھر میں کئی طریقے رائج ہیں۔ جیسے متن مرکز طریقہ، یا قاری مرکز طریقہ۔ پھرساخیات، پس ساختیات۔ کئی ایسے طریقے، جہاں تجزیے کا آغاز ہی مصنف کی موت کے اعلان سے ہوتا ہے۔ البتہ جو ڈھب مجھے بھایا، وہ تخلیقی سطح پر ’رشین فارمل ازم‘ کے قریب تر ہے، جہاں ہم کتاب میں لٹریزی نیس کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ عنصر زبان کے تخلیقی، منفرد اور پرقوت اظہار سے جنم لیتا ہے۔ ایسی زبان، جو روزہ مرہ کی، بول چال کی زبان نہ ہو۔ اخباری زبان نہ ہو۔ اور پھر دوسرا عنصر ہے؛ Defamiliarization۔ یعنی مانوس شے، کو اجنبی بنا دینا، تاکہ قاری کے سامنے نیا تناظر ابھرے۔
تنقید میں تاریخی تناظر بھی اہم ہے، جسے فرانسیسی سکالر ایڈولف ٹین نے پیش کیا۔ ایڈولف ٹین اپنے تجزیے میں مصنف کے عہد، اس کو میسر ثقافتی تجربات، وہ لمحہ، جب کتاب لکھی گئی، اور مصنف کی انفرادی قابلیت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ محمود الحسن کی انفرادی قابلیت اس کتاب یا اس کے پورے کام کو سمجھنے میں ہمارے لیے معاون ہو سکتی ہے۔
محمود الحسن کی اولین خوبی ان کا وسیع مطالعہ اور حافظہ ہے، جس کی شمس الرحمان فاروقی نے بھی داد دی۔ یہ چیزیں انٹرویو نگاری میں محمود الحسن کے کام آئیں کہ وہ جس کا انٹرویو کرنے جاتے، اس کی بابت پوری طرح آگاہ ہوتے، بلکہ اکثر انھیں ان ہی کی کوئی بھولی بسری بات بتا کر حیران کر دیتے۔ فاروقی صاحب نے محمود کی بذلہ سنجی کی بھی تعریف کی۔ یہ دوسری خوبی ہے۔ دراصل وہ انٹرویو کے دوران تکلف کی خلیج  پاٹ کر ایک دوستانہ ماحول تخلیق کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جس سے مکالمہ پرسکون میدانوں میں داخل ہو کر روانی سے بہنے لگتا ہے۔
محمود خیالات و واقعات کو جوڑنے یا ان میں یک ساں آہنگ تلاش کرنے کی بھی قابلیت رکھتے ہیں۔ آپ اور ہم منٹو، بیدی، کرشن چندر کی تحریریں پڑھتے ہیں، حظ اٹھتے ہیں، مگر محمود پڑھتے ہوئے اُن  کے یک ساں موضوعات ان کے احساسات کو شناخت کر لیتے ہیں۔ بیدی نے لاہور کو کیسے یاد کیا، کرشن نے اُس کا ذکر کیوں کر کیا۔ کنہیا لال کپور کی یادوں میں لاہور کی شبیہ کی تھی؟ محمود الحسن انھیں سلیقے سے جوڑ کر ایک دلچسپ کتاب کی شکل دے سکتے ہیں اوران کی ’لاہور، شہر پرکمال‘ ایسی ہی ایک کتاب تھی۔

تازہ کتاب سے محمود الحسن کی صحافتی صلاحیتیں بھی جھلکتی ہیں۔ وہ کتاب کو ایک میگزین کی طرح تیار کرتے ہیں۔ آغاز خورشید رضوی صاحب کے پیش گفتار سے ہوتا ہے۔ جو لکھتے ہیں کہ محمود کو باکمال لوگوں سے ربط رکھنے کا شوق ہے اور یہ شوق خود اس کے باکمال ہونے کی دلیل ہے۔ یہ درست بھی ہے۔ محمود کی مصروفیات دیکھیں تو وہ ہمیں اکثر محمد سلیم الرحمان، شمیم حنفی، انتظار حسین، سید محمد کاظم، احمد مشتاق اور تارڑ صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیات کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
اور پھر کتاب میں شامل ہے محمود الحسن کی ’اپنی بات‘ جو پڑھنے والے کو خوب لطف دیتی ہے۔ اس میں  محمود الحسن اسد محمد خاں کی کتاب ’ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کتاب کو بھی فاروقی صاحب سے ٹکڑوں میں ہونے والی گفتگو قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے اب تک جو انٹرویوز کیے، ان میں کسی شخص کو فاروقی صاحب جیسا صاحب علم نہیں پایا۔ اُس کے بعد فاروقی صاحب کا اجمالی خاکہ ہے۔
فاروقی صاحب کی جو گفتگو کتاب میں موجود ہے وہ دراصل ان دوطویل  انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ البتہ صاحب کتاب نے اپنے سوالات حذف کر کے اُن کی جگہ سرخیاں جما دی ہیں جس سے مطالعے کا عمل زیادہ سہل اور پرلطف ہوجاتا ہے اور قاری اپنی دلچسپی کے موضوعات کو سہولت سے پہچان سکتا ہے۔
آخر میں مہر افشاں فاروقی کا انٹرویو موجود ہے جو اپنے والد کی طرح محمد حسن عسکری کی فکر اور ان کی نثر کی معترف ہیں۔

شمس الرحمان فاروقی کا انتقال 25 دسمبر 2020 کو ہوا تھا۔ (فوٹو: جشن ریختہ)

فاروقی صاحب اتنی قد آور اور اہم شخصیت ہیں کہ اُن کے کہی ہر بات پر کئی باتیں ہو سکتیں۔ ان کے خیالات محمد حسن عسکری کے قامت کو، بہ طور نقاد، مزید تقویت دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ آل احمد سرور اور کلیم الدین کے نظریہ تنقید پر بھی اپنے دوٹوک موقف پیش کرتے ہیں۔ فاروقی صاحب انتظار حسین کی افسانہ نگاری کو اہم گردانتے ہیں۔ البتہ قرۃ العین حیدر سے متعلق ان کے خیالات نہ صرف چونکا دیتے ہیں بلکہ نئے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں۔ انتظار صاحب اور قرۃ العین کے معاملے میں ہم فاروقی صاحب کو دو انتہاؤں پر دیکھتے ہیں اور یہ شے ہمیں الجھا دیتی ہے۔
ساتھ یہ شے بھی کہ وہ بہ طور فکشن نگار ان موضوعات کے انتخاب کو ترجیح دیتے ہیں جس سے زمانی طور پر وہ خاصے فاصلے پر ہوں، مگرساتھ ہی وہ مادام بواری پر ماریو برگیس یوسا کے ناول ’بیڈ گرل‘ کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں جو زمانی اعتبار سے حال کے قریب ہے اور یہ ہمیں کچھ عجیب لگتا ہے۔
اسی طرح جب وہ اورحان پامک اور اسماعیل کادارے کی بابت گفتگو کرتے ہیں تو ان مصنفین کی اپنی مذہبی شناخت سے اختیار کردہ شعوری دوری پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ فاروقی صاحب خود زمانی دوری کو اپنے لیے بہ طور فکشن نگار منتخب کرتے ہیں تو اس سے ایک چھوٹا سا پیراڈاکس جنم لیتا ہے اور یہ کتاب کی خوبی ہے۔ ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم فاروقی صاحب کو مزید سمجھیں، مزید جانیں۔
خورشید رضوی صاحب نے لکھا ہے: ’محمود کی خوبی یہی ہے کہ وہ خود بیچ میں نہیں کودتا۔ ہمیں فاروقی صاحب کے ساتھ بٹھا کر خود دور کھڑا مسکراتا رہتا ہے۔‘ میرے نزدیک منصف ہمیں متن کو یا کہہ لیں فاروقی صاحب  کے بیانیہ کو ڈی کنسٹرٹ کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے اور یہ ایک اہم کامیابی ہے۔ محمود الحسن بھی چھوٹے موٹے لاہور ہیں۔ اور یہ چھوٹی سی کتاب فاروقی صاحب کے ساتھ ساتھ ہماری اُس لاہور سے بھی ملاقات کراتی ہے۔

شیئر: