رواں برس ہم بہار اور خزاں سے محروم رہے ہیں، یوں گماں ہوتا ہے سیاسی درجہ حرارت نے موسموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انتظار حسین ہوتے تو اس المیے کو اپنے کسی کالم کا موضوع بناتے اور بیتے موسموں کی یادوں سے دل کو تڑپاتے۔
یادوں سے خیال آیا کہ کیسے کیسے لوگ ہم سے بچھڑ گئے اور بس کبھی کبھار کوئی بھولی بھٹکی یاد ان کا پتہ دیتی ہے، یہ شاید حالات کا جبر ہے یا نئے آدمی کا المیہ!
ممتاز ادیب میلان کنڈیرا کا ایک لافانی جملہ ہے ’جبر کے خلاف فرد کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی لڑائی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
صفیہ نے سعادت کو منٹو بنایاNode ID: 453721
-
اردو افسانے کی سلطنت کے معمار غلام عباس کا لاہور سے عشقNode ID: 619121
یوں لگتا ہے کہنہ مشق صحافی اور مصنف محمود الحسن نے ’اس یاداشت کی لڑائی‘ میں پڑھنے والوں کو کمک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تبھی تو ان کی نئی آنے والی کتاب ’گزری ہوئی دنیا سے‘ ہے۔
’گزری ہوئی دنیا سے‘ کا انتساب شمس الرحمن فاروقی اور آصف فرخی کے نام ہے۔ یہ دونوں نام اردو ادب کی دنیا کے لیے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔
شمیم حنفی جیسی قد آور شخصیت نے کتاب کا دیباچہ لکھا ہے اور بقول ان کے ’کتاب نہ تو تنقید و تاریخ کی کتاب ہے، نہ روایتی معنوں میں قصہ، تذکرہ یا داستان۔ اسے ہم محض اپنے ادبی اور تہذیبی ماضی کی دستاویز بھی یوں نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اوراق میں اجاگر ہونے والے چہروں سے ہماری زندگی، ہمارے شہر اور راستے، ہماری محفلیں ابھی حال تک روشن تھیں۔
مگر راستے کس طرح چپ چاپ خالی ہو جاتے ہیں، ہماری زندگی کتنی خاموشی سے سُونی ہوتی جاتی ہے اور گھر، بستیاں، جلسے کیسے یکایک اُجاڑ نظر آنے لگتے ہیں، محمود الحسن کے ہر مضمون میں اس خسارے، محرومی اور افسردگی کے احساس کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔‘

اس کا فلیپ ممتاز ادیب اور مترجم سلیم الرحمٰن نے لکھا ہے۔
اگر مصنف کی بات کریں تو انہوں نے اپنے ابتدائیے کا اختتام ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل کے ان الفاط پر کیا ہے ’یاد ہی تو اصل انسانیت ہے۔‘
محمود الحسن نے ’گزری ہوئی دنیا سے‘ میں مختلف اخباروں اور ویب سائٹس کے لیے لکھے 16 مضامین کو یکجا کیا ہے۔
کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف کی ’میں‘ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے ان بڑے ادیبوں کے بارے جو پڑھا، جو سنا یا جن کے ساتھ ان کی سنگت رہی، اسے ویسے ہی بیان کر دیا۔
پہلا مضمون عربی زبان کے ممتاز عالم محمد کاظم کے بارے میں ہے۔ محمود الحسن نے نہائیت دلکشی سے جہاں محمد کاظم کی عربی سیکھنے کی جدوجہد کو ان ہی کے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہیں ان کی جماعت اسلامی سے وابستگی اور پھر علیحدگی کا بھی ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی ہمارے عہد کا ایک بڑا نام ہیں ان کی اپنے استادِ صوفی محمد ضیا الحق سے متعلق یادیں پڑھنے والوں کے لیے ایک خزانہ ہیں۔
انتظار حسین کی 1947 میں اپنے بچھڑے دوست ریوتی کے ساتھ دوستی کا قصہ جہاں درد سے بھرپور ہے وہی اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ 1947 میں دونوں ملکوں کی تقسیم لاکھوں افراد کے خون کے باوجود محبت کے رشتوں کو توڑ نہ سکی۔

آج اندھی نفرت اور اندھی عقیدت کے دور میں سبط حسن اور انتظار حسین کے متعلق مضمون سے ہم جان سکتے ہیں کہ اختلاف رکھتے ہوئے بھی تعلق کو کیسے قائم رکھا جاتا ہے۔
ناصر کاظمی جیسے بڑے شاعر نے نئے ملک میں کن صعوبتوں سے وقت گزارا یہ ’پرانی انارکلی میں ناصر کاظمی کا گھر‘ پڑھ کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کتاب میں دو مضمون بہرحال خاص ہیں ان میں ’آرٹ کے محتسب‘ اور ’منٹو کا صفیہ سے رشتہ‘ شامل ہیں۔
’آرٹ کے محتسب‘ میں ہمارے ہاں فنون و لطیفہ کے زوال کی اصل وجہ سامنے آتی ہے جو ریاست کے اس ملک میں قدامت پرستی کو فروغ دینے اور آزاد سوچ کو پنپنے نہ دینے کی پالیسی ہے۔
منٹو کو اس عہد میں جیسے کمرشلائز کر کے بیچا گیا اگر وہ زندہ ہوتے تو شاید اس پر بھی اپنے کاٹ دار قلم سے کوئی افسانہ لکھ دیتے۔
لیکن سعادت کیسے منٹو بنا اس کی بے مثال تخلیقات کی قیمت اس کے خاندان نے کیسے ادا کی یہ تو ’منٹو کا صفیہ سے رشتہ‘ پڑھ کر ہی پتہ چلتا ہے۔
