کتابوں کی ایک دکان پر معروف اور بیسٹ سیلرز کتابوں کے درمیان سلیٹی رنگ کے سرورق والی اس کتاب پر نظر پڑی تو پہلے گمان ہوا کہ اوشو کی کوئی نئی کتاب آئی ہے شاید، کتاب کا عنوان ’داڑھی والا‘ تھا اور بلیک اینڈ وائیٹ پوٹریٹ بھی ایک لمبی داڑھی والے شخص کا جو آنکھیں موندے کسی وجدان کی کسی کیفیت میں ہے۔ پھر مصنف کے نام پر نظر دوڑائی۔۔۔ ’حسنین جمال‘۔۔۔ تو مجبوراً ہاتھ کتاب کی جانب بڑھ گیا۔
کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی، ذہن میں خیال ہے کہ یہ صاحب کون ہیں، کیا لکھتے ہیں، کیوں لکھتے ہیں؟ وہیں کھڑے کھڑے ہی کتاب کا تعارفی مضمون پڑھ ڈالا۔
’ڈاڑھی والا‘ حسنین جمال کی تحریروں کا یہ مجموعہ ہے جو گذشہ کئی برسوں میں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہی ہیں اور اب کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہیں۔ حسنین جمال کا اسلوب قابل غور ہے۔ وہ سیاست کی بات نہیں کرتے، اوشو کی طرح گیان نہیں بانٹتے۔ دل کی بات کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں دل سے پڑھنے والوں کے لیے ہیں۔
حسنین جمال نے کن موضوعات پر قلم اٹھایا، ان کے موضوعات کے تنوع کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے گھریلو خواتین کے چھوٹے چھوٹے مسائل، دفتر یا کسی تقریب میں وقت پر پہنچنے کی کشمکش اور اس دوران ہونے والی گفتگو اور عادات و اطوار سے لے کر موٹرسائیکل کی تبدیل ہوتی آوازوں کی کہانیاں بیان کر دی ہیں۔
داڑھی والا حسنین جمال اپنے قاری کو اس کی اپنی زندگی سے متعارف کرواتا ہے۔ وہ راکٹ سائنس بیان نہیں کرتا، زندگی کی پیچیدگیوں اور گنجلک مسائل میں الجھنے کے بجائے آپ کو باور کرواتے ہیں کہ ہلکی بوندا باندی کتنی خوبصورت ہو سکتی، کلاسیکل راگ سن کر کیا دل کی دھڑکنیں تیز ہو سکتی ہیں یا کسی کو لکھا گیا پہلا خط املا کی غلطیوں سے بھرپور بھی ہو سکتا ہے، وہ یہ فن جانتا ہے کہ اپنے اردگرد کے کرداروں کو آپ کے سامنے کیسے زندہ کھڑا کرنا ہے کہ پڑھنے والا اسی کا ایک کردار بن جاتا ہے۔
آپ کا جنم ہوا تو اس وقت آپ کے گھر میں کیا ماحول تھا؟ سکول کا پہلا دن یاد ہے؟ کالج کی پہلی محبت؟ کسی کی یاد اب بھی ستاتی ہے کیا؟ کیا آپ کے ابا جان کو اب واٹس ایپ کا استعمال آگیا ہے؟ والدہ سے اب بھی ڈانٹ پڑتی ہے؟ جب آپ کی اولاد نے ننھے ننھے قدموں کے ساتھ چلنا شروع کیا تو بارش زوروں کی ہوئی تھی ناں؟ آپ نے سب دیکھا لیکن آپ نے یہ یادداشتیں ذہن کے کسی بند کواڑ میں پھینک دیں۔ حسنین جمال کی باتیں اس کتاب کے ایک ایک ورق پلٹنے کے ساتھ ساتھ آپ کی یادوں کے بند دوارے کھولتی جاتی ہیں۔
داڑھی والا میں زبان کا لطف ہے، قاری کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہیں غصہ سرائیکی، پنجابی جگت، اردو میں ڈپلومیسی اور دفتری امور کے لیے انگریزی زبان پسند ہے، انہیں زبانوں کا چٹخارا ان کی تحریروں میں بھی جھلکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی جزیات کو جس پیرائے میں بیان کیا وہ بھی قابل غور ہیں۔ منظر نگاری، بھئی واہ!
حسنین جمال آج کل انڈیپنڈنٹ اردو کےساتھ وابستہ ہیں، ہفتہ وار وی لاگ کرتے اور بلاگ لکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب ملک کی سیاسی صورتحال کا پارہ عروج پر تھا، فیس بک کی ٹائم لائن پر حسنین جمال کا وی لاگ نظر آیا: ’پاکستان: ہونڈا 125 کا ڈیزائن تبدیل کیوں نہیں ہوتا؟‘ جی ہاں! آپ یہاں رکے بغیر آگے گزر جائیں یہ ہو نہیں سکتا۔ ایک دوست کا تبصرہ تھا کہ ’زندگی ایسی چِل ہونی چاہیے، جب ملک میں دس دس منٹ میں دس دس سال والے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور یہاں چِل لائف۔‘
یہی حسنین جمال کا خاصہ ہے کہ وہ آپ کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو آپ کو اپنی محسوس ہوتی ہے۔ گھر میں برتن ٹوٹ جاتے ہیں، موٹرسائیکل میں تیل ختم ہو سکتا ہے، بیٹیوں کو ضد کرنے کا حق حاصل ہے، بڑا بھائی ہونا آسان نہیں، کوئی پرانا گیت اچھے بھلے موڈ کو اداس کر سکتا ہے، دھوپ تیز ہوتی دیوار کی مٹھی بھر چھاؤں بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ دے سکتی ہے، دن بھر کی مشقت کے بعد ایک انجانے نمبر سے آنے والی والی ایک کال آپ کی زندگی ’گلزار‘ کر سکتی ہے، حوصلہ رکھیے۔ یہی واقعات، جزیات، جملے، تبصرے اور عوامل، ہم سبھی کی زندگی میں ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن انہیں محسوس کیسے کیا جاسکتا ہے، حسنین جمال نے اپنی تحریروں میں یہی بیان کیا ہے۔ زندگی جییں، چائے میں چینی کم بھی ہوتو تجربے کے طور پر اس کا لطف لیجیے! زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا دکھ پھر کسی وقت کے لیے سنبھال رکھیے!
’داڑھی والا‘ ایک حسنین جمال ہم سب میں موجود ہے، کتاب میں اپنے آپ سے ملاقات کیجیے!