’ڈاکوؤں کی سہولت کاری‘، پولیس اہلکاروں کو کراچی بھیجنے پر تحفظات
’ڈاکوؤں کی سہولت کاری‘، پولیس اہلکاروں کو کراچی بھیجنے پر تحفظات
منگل 30 اپریل 2024 12:38
زین علی -اردو نیوز، کراچی
سندھ پولیس نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کئی آپریشن کیے۔ (فوٹو: پولیس)
سندھ کے علاقے شکار پور میں مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں 79 پولیس اہلکاروں کو کراچی و حیدرآباد رینج بھیجنے کا عمل روک دیا گیا ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے اس فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں خاطر خواہ نتائج نہ حاصل ہونے پر پولیس نے شکارپور سمیت دیگر علاقوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف خفیہ انکوائری کی تھی اور جرائم پیشہ افراد کی سہولت کاری کے الزام میں 79 پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔
متعلقہ علاقے کے ایس ایس پی نے ہیڈ کوارٹرز کو آگاہ کیا تھا کہ ان پولیس افسران و اہلکاروں کی خدمات انہیں درکار نہیں لہذا انہیں واپس لیا جائے۔
اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے ان اہلکاروں کی خدمات واپس کرنے کے بعد آئی جی غلام نبی میمن سندھ نے پولیس اہلکاروں میں سے 74 کو کراچی جبکہ پانچ اہلکاروں کو حیدرآباد رینج میں بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
جرائم میں ملوث اہلکاروں کو کراچی حیدرآباد رینج رپورٹ کرنے پر صوبہ سندھ میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے ایک بار پھر حکومت سندھ پر کچے کے ڈاکوؤں کی سہولت کاری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کی سہولت کاری کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کراچی بھیجنے کے فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومت جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی میں پولیس کی نفری کی ضرورت ہے تو مقامی افراد کو موقع دیا جائے۔
مذکورہ پولیس اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن کے حوالے سے جرائم پیشہ افراد کو اطلاع فراہم کی تھی۔
آئی جی آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ان پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر ڈیوٹی سے ہٹاتے ہوئے شو کاز نوٹسز جاری کیے گئے تھے جن میں انہیں اس معاملے پر اپنی صفائی پیش کرنے کے احکامات دیے گئے تھے۔
ان پولیس اہلکاروں کے کراچی آمد کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے آئی جی اور صوبائی وزیر داخلہ سے اہم ملاقات کی تھی۔
آئی جی سندھ سے ملاقات کے بعد اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا کہ ’کراچی میں سٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہے، آئے روز لوٹ مار کرنے والے کسی نہ کسی کی جان لے لیتے ہیں۔ ایسے میں جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کو کراچی بھیجنا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
علی خورشیدی کا مزید کہنا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب سٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم سے پریشان عوام پولیس تھانوں کا گھیراؤ کرنے لگیں گے۔ عوام کی صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
انہوں نے آئی جی سندھ پولیس سے درخواست کی کہ ’کراچی میں پولیس کی اسامیوں پر مقامی افراد کو موقع دینا چاہیے، مقامی افراد اگر پولیس میں ہوں گے تو علاقے میں جرائم پر قابو پانے میں آسانی ہو گی۔‘
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق سندھ سے کراچی منتقل کیے گئے پولیس اہلکاروں کو محکمہ جاتی کارروائی کے تحت کراچی بھیجا گیا ہے، انہیں کراچی میں کہیں بھی تعینات نہیں کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں جہاں بھی شکایت موصول ہو گی وہاں ادارہ حرکت میں آئے گا، محکمہ پولیس میں جرائم پیشہ افراد کی سہولت کاری کرنے والوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ کراچی بھیجے گئے پولیس اہلکاروں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ خود پر لگنے والے الزامات پر اپنا موقف پیش کر سکے۔
دو روز قبل کراچی شہر میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے الزام میں پولیس کے انسداد دہشتگردی سیل ( سی ٹی ڈی) کے چار اہلکاروں کو شہریوں کو اغوا کرنے اور ان سے تاوان وصول کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کیا گیا ہے۔
اس سے قبل کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک تاجر کے گھر ڈکیتی کے الزام میں ایک ڈی ایس پی سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں ایس ایچ او بوٹ بیسن تھانے کے ذریعے تاجر کو کچھ پیسے واپس بھی کیے گئے تھے۔ تاجر کی جانب سے مقدمہ درج کرنے پر انڈر ٹریننگ ڈی ایس پی سیمت دیگر پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔