Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرغوں کی لڑائی جو چھتیس گڑھ کے باسیوں کو جوڑ کر رکھتی ہے

پیپل فار دی ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیمل انڈیا (پِیٹا) کے حکام مرغوں کی لڑائی کو ’ظالمانہ کھیل‘ قرار دیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا یوں تو پوری دنیا میں کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں مرغوں کی لڑائی نہ صرف باسیوں کو جوڑ کر رکھتی ہے بلکہ تماشائیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں بھی کامیاب رہتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اصیل مرغوں کی لڑائی کو عام طور پر ایک ظالمانہ کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن انڈیا کے قبائلی علاقوں میں اس کھیل کی وجہ سے عوام ایک ہو جاتے ہیں۔
راجو جو کے ایک مقامی مرغ فائٹر ہیں اور مرغے لڑانے کی قابلیت کے باعث مشہور ہیں، انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل عوام کے پاس تفریح کے لیے کچھ نہیں تھا تو مرغوں کی لڑائی نے دوسرے گاؤں کے لوگوں سے ہمیں ملنے کی سہولت فراہم کی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمارے اردگرد بہت سی تبدیلیاں ہوگئی ہیں لیکن یہ کھیل ابھی بھی مقبول ہے۔‘
چھتیس گڑھ کے ضلع بَستر کے جنگلات میں ابھی بھی قبائلی کمیونیٹیز بکھرے ہوئے دیہاتوں میں رہتی ہیں۔
انڈیا میں کروڑوں روپے کے انفراسٹرکچر سے ہونے والی ترقی، نئی سڑکیں اور موبائل فون ٹاوررز لگنے کی وجہ سے یہ قبائلی باشندے جدید دور کے قریب آ گئے ہیں لیکن جب مرغوں کی لڑائی کا وقت آتا ہے تو سینکڑوں کی تعداد میں مرد دریا، پہاڑ اور جنگلات پار کر کے جمع ہو جاتے ہیں۔
کیتکلیان گاؤں کے 35 برس کے رہائشی بھگت کہتے ہیں کہ ’میں کوئی کام نہیں کرتا۔ میں صرف مرغوں کی لڑائی طے کرتا ہوں، مرغے پالتا ہوں اور اُن پر جوا لگاتا ہوں۔‘
گذشتہ مہینے بھگت کے گاؤن کیتکلیان میں مرغوں کی لڑائی رکھی گئی جس میں کئی لڑائیاں تو کچھ ہی لمحات میں ختم ہوگئیں۔
بھگت اور اُس کے مخالف نے اپنے اپنے مرغوں کی چونچیں لڑائی سے قبل ایک دوسرے کے قریب لائیں کہ آیا کیا دونوں مرغے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔
 

کئی لڑائیاں جیت جانے والے مرغوں اور اُن کے مالکان کی خوب واہ واہ ہوتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد دونوں تماشائیوں کے شور میں اپنے اپنے مرغوں کے پنجوں پر تیز دھار بلیڈ باندھتے ہیں اور یوں لڑائی شروع ہوتی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک کی طرح انڈیا کی کئی ریاستوں میں جانوروں پر ظلم سمجھے جانے کے باعث مرغوں کی لڑائی پر پابندی عائد ہے۔
پیپل فار دی ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیمل انڈیا (پِیٹا) کے حکام مرغوں کی لڑائی کو ’ظالمانہ کھیل‘ قرار دیتے ہیں اور اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم بَستر کے جنگلات میں رہنے والے قبائلی مردوں کے لیے مرغ لڑانا زندگی کا ایک حصہ ہے۔
کئی لڑائیاں جیت جانے والے مرغوں اور اُن کے مالکان کی خوب واہ واہ ہوتی ہے۔
 

جب مرغوں کی لڑائی کا وقت آتا ہے تو سیکڑوں کی تعداد میں مرد دریا، پہاڑ اور جنگلات پار کر کے جمع ہو جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

راجو کہتے ہیں جس طرح انڈیا بھر میں سچن تندولکر کا نام کرکٹ میں مانا جاتا ہے اسی طرح مرغ فائٹرز کو مقامی سطح پر لمبے عرصے تک یاد رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسے آپ لوگوں کے پاس کرکٹ کے میدان ہوتے ہیں ویسے ہمارے یہ مرغ لڑانے کی فِیلڈ ہے اور جیتنے والے کو سچن کی طرح سکور بنانے پر عزت اور شہرت حاصل ہوتی ہے۔‘
بھگت کہتے ہیں کہ جب ہمارے مرغے لڑائی میں ہارتے یا مرتے ہیں تو انہیں بہت بڑا صدمہ پہنچتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب لڑائی میں ہمارا کوئی مرغا مرتا ہے تو کئی دنوں تک ہمارا دل غم سے بھرا رہتا ہے۔‘ 

شیئر: