خضدار میں ایک اور صحافی کی ’ٹارگٹ کلنگ‘، ’ہم خوف کے سائے میں کام کر رہے ہیں‘
خضدار میں ایک اور صحافی کی ’ٹارگٹ کلنگ‘، ’ہم خوف کے سائے میں کام کر رہے ہیں‘
جمعہ 3 مئی 2024 18:37
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا محمد صدیق کو مقناطیسی بم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا (فوٹو: عرب نیوز)
بلوچستان کے ایک سینیئر صحافی کو بم دھماکے میں قتل کردیا گیا۔حملے کی زد میں آکر دو عام شہری ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوگئے۔
جمعے کو یہ واقعہ ایسے موقعے پر پیش آیا ہے جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
قائم مقام ایس ایس پی خضدار نوید عالم نے اردو نیوز کو بتایا کہ خضدار پریس کلب کے صدر مولانا محمد صدیق مینگل کو خضدار کے مرکزی علاقے چمروک میں اس وقت ایک بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ گاڑی میں سوار تھے۔
خضدار پریس کلب کے سیکریٹری جنرل اقبال شاہوانی کے مطابق مولانا صدیق مینگل خضدار انجینیئرنگ یونیورسٹی میں نمازِ جمعہ پڑھانے جا رہے تھے جہاں وہ خطیب کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔
ایس ایس پی کے مطابق ’دھماکے کی زد میں آکر دو موٹرسائیکل سوار بھائیوں سمیت سات افراد زخمی ہوئے جن میں سے دونوں بھائی بعدازاں دم توڑ گئے۔ زخمیوں کو خضدار کے گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘
ایس ایس پی نوید عالم نے مزید بتایا کہ ’جائے وقوعہ کے قریب نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ مقناطیسی بم کے ذریعے کیا گیا۔‘
’مقناطیسی بم موٹر سائیکل سوار نے موڑ کاٹتے ہوئے مولانا صدیق مینگل کی چلتی ہوئی گاڑی کے ساتھ ڈرائیور کی جانب والے دروازے سے چِپکایا جس کے صرف تین سے چار سیکنڈ کے اندر دھماکہ ہوگیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مولانا صدیق خود گاڑی چلا رہے تھے اس لیے دھماکے کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے وہ بچ نہیں سکے۔‘
ایس ایس پی کے مطابق ’واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور دیگر تحقیقاتی ادارے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔‘
صوبائی دارالحکومت سے تقریباً 300 کلومیٹر دور کوئٹہ اور کراچی کے درمیان قومی شاہراہ پر واقع خضدار بلوچستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
چند برس پہلے تک یہ بدامنی سے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کی وجہ سے صحافیوں سمیت ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر بھی مجبور ہوئے۔ مولانا صدیق مینگل خضدار کے ساتویں صحافی ہیں جو گذشتہ 15 برسوں کے دوران قتل ہوئے۔
مولانا صدیق مینگل پر اگست 2023 میں بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ انہیں اسی طرح نماز جمعہ پڑھا کر گھر جاتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، تاہم گاڑی پر تین گولیاں لگنے کے باوجود وہ بال بال بچ گئے تھے۔
مولانا محمد صدیق مینگل گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت سے وابستہ تھے۔ وہ ان دنوں کوئٹہ کے روزنامہ باخبٖر کے لیے خضدار میں نامہ نگار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ جمعیت علماء اسلام سے بھی وابستگی رکھتے تھے اور جماعت کے صوبائی نائب امیر تھے۔
تاہم خضدار اور بلوچستان کے صحافیوں کو شُبہ ہے کہ مولانا صدیق مینگل کو سیاسی وابستگی کے بجائے صحافی ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
خضدار کے ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولانا صدیق مینگل کی کسی سے کوئی دشمنی وغیرہ نہیں تھی۔
’انہوں نے کبھی دھمکی وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کیا، وہ اپنے اوپر ہونے والے پہلے حملے کے بعد وجوہات کا علم نہ ہونے پر پریشان تھے۔‘
اگست 2023 میں ایک انٹرویو میں صدیق مینگل نے کہا تھا کہ ’خضدار کے حالات اب بھی صحافیوں کے لیے سازگار نہیں ہیں، ہم خوف اور ہیجانی کیفیت میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری حفاظت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔‘ ’یومِ آزادی صحافت پر صحافی کا قتل کرکے صحافیوں کو پیغام دیا گیا‘
کوئٹہ میں صحافی یوم آزادی صحافت کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے پریس کلب میں جمع ہو رہے تھے کہ انہیں خضدار میں ساتھی کے قتل کی اطلاع ملی۔
صحافیوں نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت سے مولانا صدیق مینگل سمیت صوبے میں اب تک مارے گئے تمام صحافیوں کے قتل کی جامع تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان میں عامل صحافیوں کی تنظیم بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد کا کہنا ہے کہ صحافت کے دن کے موقع پر سینیئر صحافی کا قتل حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ملک میں آزادی صحافت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوم آزادی صحافت پر صحافی کو قتل کرکے بلوچستان کے صحافیوں کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنے قلم اور زبانوں کو بند رکھیں۔
’ہم بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے صحافی کسی دھمکی اور پابندی کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور حق و سچ کی بات کرنا نہیں چھوڑیں گے۔‘
خلیل احمد کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ ماضی میں قتل ہونے والے صحافیوں کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفرِکردار تک پہنچاتی تو ایسے واقعات نہ ہوتے۔‘
وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز احمد بگٹی، بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو اور ترجمان صوبائی حکومت شاہد رِند نے خضدار پریس کلب کے صدر کے قتل کی مذمت کی ہے۔
سرفراز احمد بگٹی نے آئی جی پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ میں ملوث عناصر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
ضیاء اللہ لانگو نے اپنے بیان میں کہا کہ کہا کہ ’دہشت گردوں کا کوئی ایمان نہیں، معصوم اور نہتے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔آزادی اظہارِ رائے کے دن پریس کلب کے صدر کو قتل کرنا صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔‘
صدیق مینگل قتل ہونے والے خضدار پریس کلب کے چوتھے صدر
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں گذشتہ 20 برسوں کے دوران کم سے کم 42 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ان میں نصف سے زائد کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
بی یو جے کے مطابق خضدار میں 2009 سے اب تک 7 صحافیوں اور ان کے اہلِ خانہ کے دو افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔
خضدار پریس کلب کے مطابق مولانا محمد صدیق مینگل خضدار پریس کلب کے چوتھے صدر ہیں جنہیں قتل کیا گیا۔
اس کے علاوہ خضدار پریس کلب کے سابق صدر ریاض مینگل کو اکتوبر 2007 میں اغوا کیا گیا، وہ تقریباً دو ماہ قید میں رہے۔
روزنامہ آزادی کے نامہ نگار فیض الدین سمالانی شہر کے پہلے صحافی تھے جنہیں 27 جون 2009 کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ کالعدم بی ایل اے نے اُن کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے لیے کام کرنے والے وصی احمد قریشی کو 10 اپریل 2010 کی خضدار میں ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
خضدار پریس کلب کے صدر محمد خان ساسولی کو 14 دسمبر 2010 کو شہر میں گھر کے قریب گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
آن لائن نیوز ایجنسی کے نمائندے منیر احمد شاکر کو 14 اگست 2011 کو ایک تقریب کی کوریج سے واپسی پر گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
29 ستمبر 2012 کو خضدار پریس کلب کے سیکریٹری جنرل عبدالحق بلوچ کو پریس کلب سے گھر جاتے ہوئے فائرنگ کرکے مار دیا گیا۔
اکتوبر 2012 میں خضدار پریس کلب کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو بیٹوں سراج احمد اور منظور احمد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
14 فروری 2014 کو روزنامہ خبردار اور روزنامہ ایگل کے نمائندے محمد اعجاز مینگل کو فائرنگ کا نشانہ بنے۔ان کے قتل کی ذمہ داری بلوچ نیشنل آرمی نے قبول کی۔ خضدار صحافیوں کے لیے مقتل کیوں؟
بلوچستان میں صحافت کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف عابد میر نے اپنی کتاب ’بلوچستان اور جدید ذرائع ابلاغ‘ میں لکھا ہے کہ بلوچستان میں 2005 سے 2021 تک 45 صحافی مختلف وجوہات کی بنا پر قتل ہوئے۔
سب سے زیادہ خضدار کے صحافی نشانہ بنے۔ اس لیے انہوں نے خضدار کو صحافیوں کے لیے مقتل قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ محمد خان ساسولی اور منیر شاکر کے قتل کے بعد مسلح دفاع نامی تنظیم کی جانب سے تقسیم کیے گئے پفملٹس میں صحافیوں کو بی ایس او اور بی این پی سمیت قوم پرستوں بالخصوص علیحدگی پسندوں کے پروگراموں کی کوریج سے منع کیا گیا تھا۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے اپریل 2010 میں اپنے ایک بیان میں بلوچ مسلح دفاع تنظیم کی جانب سے خضدار کے صحافیوں کو دھمکی آمیز خطوط پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
سنہ 2012 میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی بلوچستان سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خضدار میں حکومت اور بلوچ مسلح تنظیموں کے درمیان تنازعے میں صحافی مارے جا رہے ہیں۔
عابد میر نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ خضدار پریس کلب کے سابق صد ریاض مینگل کو اپنے مقتول بھائی اعجاز مینگل کو خضدار میں تدفین کی اجازت بھی نہیں ملی مجبوراً انہیں بھائی کو سندھ میں دفنانا پڑا۔
خضدار پریس کلب کے سیکریٹری جنرل اقبال مینگل کے ایک مضمون کے مطابق صحافیوں کے پے درپے قتل کے واقعات کے بعد 2012 سے 2013 تک خضدار پریس کلب کو تقریباً ایک سال تک تالا لگا رہا۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ مولانا صدیق مینگل کا قتل خضدار میں گذشتہ دو دہائیوں سے جاری صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ہی تسلسل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان کے صحافیوں کو اپنے پیشے کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور صوبے میں سب سے زیادہ خضدار کے صحافی نشانہ بنے ہیں۔انہیں شہر تک چھوڑنا پڑا، پریس کلب کئی ماہ تک بند بھی رہا۔
شہزادہ ذواالفقار کے مطابق ’بلوچستان میں سرکار اور مسلح تنظیموں دونوں جانب سے صحافیوں کو دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔‘
’خضدار کے صحافیوں کو سب سے زیادہ اس دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جہاں کسی صحافی کو سرکار کے لیے کام کرنے کا الزام لگا کر تو کسی کو عسکریت پسند گروہ کی حمایت کے شبے میں قتل کیا گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ خضدار میں بعض صحافیوں کو صرف اس بنا پر بھی قتل کیا گیا کہ انہوں نے کیوں کسی کا بیان شائع کیا یا کیوں کسی تقریب کی کوریج کی۔
سابق صدر پی ایف یو جے نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے خضدار میں صورت حال میں بہتری آگئی تھی کیونکہ اب مسلح تنظیمیں ہوں یا سرکاری حمایت یافتہ گروہ اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔
’مین سٹریم میڈیا پر انحصار کم ہونے کے بعد صحافیوں پر دباؤ بھی کم ہوا، تاہم نئے واقعے نے پھر سے سوالات اور خدشات کو جنم دے دیا ہے۔‘
خضدار کے ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ خضدار میں حکومت مخالف مسلح تنظیموں اور ان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے حکومت کی حمایت سے بنائے گئے مسلح گروہ کے تنازعے میں صحافی پِس رہے ہیں۔
’معمولی باتوں پر ماضی میں صحافیوں کو قتل کیا گیا اور اکثر کے اہلِ خانہ کو تو پتہ بھی نہیں کہ ان کے پیاروں کو کس بات پر مارا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی قبل جب حالات بہت زیادہ خراب تھے تو صحافی اپنی جان بچانے کے لیے یا تو روپوش ہوگئے یا پھر باقی شہروں اور صوبوں میں منتقل ہوگئے۔
’کچھ عرصے سے حالات بہتر ہونے پر صحافی دوبارہ اپنے شہر میں واپس آگئے تھے اور فعال ہوگئے تھے۔ ہم خوش تھے کہ اب مزید صحافیوں کا قتل نہیں ہوگا مگر یہ صرف خوش فہمی تھی۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بلوچستان میں یوں تو 40 سے زائد صحافیوں کی مختلف واقعات میں جان جا چکی ہے، تاہم 26 صحافی ایسے ہیں جنہیں صرف اور صرف اپنے کام کی وجہ سے ہدف بنایا گیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر کا کہنا ہے کہ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو پکڑا گیا اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی۔
ان کے بقول پی ایف یو جے اور بی یو جے کی درخواست پر ہائی کورٹ نے کمیشن بھی بنایا مگر اندرون بلوچستان میں صحافی اتنے خوفزدہ تھے کہ کسی نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ ان کو ڈر تھا کہ کسی کا نام لینے پر انہیں مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔