کشمیر میں بجلی کےٹیرف میں کمی:یونٹ کی قیمت طےکیسے ہوتی ہے؟
کشمیر میں بجلی کےٹیرف میں کمی:یونٹ کی قیمت طےکیسے ہوتی ہے؟
منگل 14 مئی 2024 21:29
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں پانی سے 28.6 فیصد، نیوکلیئر 18.6 فیصد اور آر ایل این جی 17.1 فیصد بجلی پیدا کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مہنگی بجلی اور آٹے کے خلاف پانچ روز تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد وفاقی حکومت نے کشمیر کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔
حکومت کے اس اقدام کے بعد پاکستان کے دوسرے خطوں کے بجلی صارفین بھی فی یونٹ کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف قسم کے ٹیکسز اور سرچارج لگانے کے بعد انہیں بجلی کا ایک یونٹ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ لہٰذا کشمیر کے ٹیرف کی طرز پر ان کو مہیا کی جانے والی بجلی کے نرخ بھی کم کیے جائیں۔
کشمیر کو دی جانے والی بجلی کا ٹیرف کس طرح کم کیا گیا؟
پاکستان کی وفاقی حکومت کی رضامندی کے بعد کشمیر کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نو ٹیفکیشن کے مطابق گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت تین روپے اور زیادہ سے زیادہ چھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق 100 یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ ہو گی۔ جبکہ 100 سے 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
نئے ٹیرف کے مطابق کمرشل صارفین کے لیے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 10 روپے اور زیادہ سے زیادہ 15 روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔ اس حساب سے ماہانہ تین سو یونٹ استعمال کرنے والے کمرشل صارفین کو بجلی 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی جبکہ 300 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین 15 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کریں گے۔
پاکستان میں بجلی کے ٹیرف کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
بجلی کی پیداواری لاگت کا تعین مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت پر منحصر ہوتا ہے۔ مختلف پیدواری ذرائع یعنی پانی، نیو کلیئر، کوئلہ، آر ایل این جی، گیس اور فرنس آئل وغیرہ سے پیدا ہونے والی بجلی کا اوسط ٹیرف نکالا جاتا ہے۔
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں پانی سے 28.6 فیصد، نیوکلیئر 18.6 فیصد اور آر ایل این جی 17.1 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ جبکہ کوئلے سے 16 فیصد، گیس سے 11 فیصد اور فرنس آئل سے 4 فیصد بجلی پیدا ہوئی۔
مزید برآں بجلی کے فی یونٹ قیمت میں آئی پی پیز کی ادائیگیاں، بجلی نقصانات، لائن لاسز اور ترسیلی نظام کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئندہ سال تک صرف آئی پی پیز کو سالانہ 2000 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔
دوسری جانب پاکستان میں اس وقت بجلی کے فی یونٹ کی اوسط قیمت 42 روپے ہے۔ تاہم گھریلو صارفین کوایک یونٹ زیادہ سے زیادہ 57 روپے 80 پیسے تک پڑ سکتا ہے جبکہ کمرشل صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ ٹیرف 63 روپے 98 پیسے تک ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں نیپرا کے ترجمان ساجد اکرم کا کہنا ہے کہ نیپرا بجلی کے ٹیرف کا تعین اپنے مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق کرتا ہے۔ نیپرا کے مطابق اس وقت بجلی کا بنیادی ٹیرف 29 روپے 78 پیسے بنتا ہے۔ ٹیکسز عائد ہونے کے بعد فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ماہر توانائی اور این ٹی ڈی سی کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری کے مطابق بجلی کی پیدواری لاگت ذرائع پیداوار کے اخراجات، کیسپٹی پیمنٹس، ترسیلی اخراجات اور تقسیم کار کمپنیوں کو دیے جانے والے مارجن پر طے ہوتی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ بجلی چوری اور نقصانات کا بھی ازالہ بجلی صارفین کے بلوں سے ہی ہوتا ہے۔اس کے علاؤہ کراس سبسڈی یعنی اگر کسی خاص علاقے کے صارفین کو سستی بجلی میسر ہے تو اُس کا ازالہ دوسرے علاقے کے بجلی صارفین زیادہ ٹیرف ادا کرنے کی صورت پر کرتے ہیں۔
فیاض چوہدری کے مطابق بجلی کے بلوں پر عائد بلواسطہ ٹیکس بھی فی یونٹ قیمت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی اپنی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بجلی صارفین سالانہ اربوں روپے کا بلواسطہ ٹیکس ایف بی آر کو ادا کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’کسی دوسرے ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ بلوں پر بلواسطہ ٹیکسز ادا کریں۔اس کے برعکس پاکستان میں ٹی وی اور ریڈیو کی فیس بھی بجلی کے بلوں سے حاصل کی جاتی ہے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فیاض چوہدری کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کے زیر انتظام ہوتے ہوئے پاکستان سے الگ ہو کر نہیں چل سکتا۔ اگر وہاں کے بجلی صارفین یا ملک کسی دوسرے حصے کی بجلی صارفین کو بجلی کی فی یونٹ قیمت پر سبسڈی ملے گی تو اُس کا بوجھ ملک کے عام بجلی صارفین پر پڑے گا یا اس سے گردشی قرضے میں اضافہ ہو گا۔
ماہر توانائی ارشد ایچ عباسی کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداواری لاگت میں عدم مطابقت کی وجہ ذرائع پیداوار کے تناسب کا برابر نہ ہونا ہے۔ سستی اور قابل تجدید توانائی کی پر زیادہ توجہ نہ ہونا بھی صارفین کو مہنگی بجلی فراہمی کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ملک کے مخلتف دریاؤں اور ڈیمز سے پن بجلی کا حصول ممکن بنانا چاہیے۔ اس کے برعکس کسی ایک علاقے سے بجلی کی پیداوار بجلی کے ٹیرف میں عدم مطابقت کا سبب بنتی ہے۔ حکومت اگر اس پالیسی کو اپنائے تو ملک بھر میں یونیفارم ٹیرف پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔