کراچی سے 12 سال قبل اغوا ہونے والے نوجوان کے والد کا انتقال، ’نظریں دروازے پر تھیں‘
جمعرات 16 مئی 2024 8:30
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کورین ڈاکٹرز کی عدم موجودگی پر مسلح افراد نے گاڑی میں سوار ہسپتال کے عملے کو اغوا کرلیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)
سال 2012 میں کراچی سے کورین ہسپتال کے اغوا ہونے والے عملے میں شامل نوجوان اسحاق سیمسن کے والد بیٹے کی راہ تکتے تکتے چل بسے۔ وہ گزشتہ بارہ سال سے اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔
یونس سیمسن کے چھوٹے بیٹے عامر جیکسن کے مطابق برسوں سے در در کی ٹھوکریں کھانے والے ان کے والد یونس سیمسن اپنے بڑے بیٹے کی واپسی کی اُمید دل میں لیے اتوار کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
کراچی کے علاقے منگھوپیر سے 12 سال قبل ایک کورین ہسپتال کی گاڑی میں شامل تین افراد کو اغوا کیا گیا تھا۔ گاڑی کا ڈرائیور اور ایک منیجر اغواکاروں کے چُنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن 19 سالہ اسحاق جو کورین خیراتی ہسپتال میں اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کر ہے تھے، بازیاب نہ ہو سکے۔
مغوی اسحاق سیمسن کے چھوٹے بھائی عامر جیکسن نے اُردو نیوز کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ سال 2012 کی بات ہے، میرا بڑا بھائی اسحاق حسبِ معمول صبح جلدی اُٹھ کر تیار ہو کر ملازمت پر چلا گیا۔ ہم ناشتہ کر رہے تھے تو دادا نے میرے والد کو بتایا کہ ٹی وی پر خبر چل رہی ہے کہ کراچی میں صبح سویرے دو کورین ڈاکٹروں کو اغوا کرلیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’والد نے یہ خبر سُنتے ہی ٹی وی پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا یہ واقعہ اورنگی ٹاؤن میں پیش آیا ہے، انہیں فورا خیال آیا کہ اسحاق بھی اورنگی ٹاون میں واقع کورین ہسپتال میں کام کرتا ہے۔‘
بیٹے کے اغوا کی اطلاع کب ملی؟
مغوی اسحاق سیمسن کے چھوٹے بھائی عامر جیکسن نے بتایا کہ والد نے اگلے ہی لمحے اسحاق کو کال ملائی تو اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ وہ پریشان ہو گئے، انہوں نے مجھے اور میرے ایک کزن کو ساتھ لیا اور ہم اورنگی ٹاؤن کے کورین ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال میں دیکھا تو میڈیا کے نمائندے، رینجرز اور پولیس اہلکار ہسپتال میں موجود تھے۔
عامر جیکسن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ ہسپتال انتظامیہ نے ہمیں بتایا کہ صبح تقریبا 8 بجے کے قریب ہسپتال سے کچھ فاصلے پر ایک نامعلوم گاڑی نے عملے کی گاڑی کو روکا اور اس میں سوار افراد سے کورین ڈاکٹروں کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔‘
کورین ڈاکٹرز کی عدم موجودگی پر مسلح افراد نے گاڑی میں سوار ہسپتال کے عملے کو اغوا کرلیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر اورنگی ٹاؤن کے پاکستان بازار تھانے میں درج کی گئی ہے۔
عامر جیکسن کے مطابق وہ اپنے والد اور کزن کے ساتھ ہسپتال سے نکل کر پاکستان بازار پولیس سٹیشن پہنچے۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار نے انہیں بتایا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے جسے وفاقی وزیر داخلہ خود مانیٹر کررہے ہیں۔ اس وقت وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک تھے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس افسر کے اس بیان سے انہیں اور ان کے والد کو کچھ تسلّی ملی تھی۔ انہیں اُمید تھی کہ جس معاملے کو برائے راست وفاقی وزیر داخلہ دیکھ رہے ہوں وہ جلد ہی حل ہوجائے گا اور ان کے بڑے بھائی بخیر و عافیت گھر آ جائیں گے۔
’لیکن دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔ ہم جب بھی پولیس سے رابطہ کرتے وہ کہتے کیس پر کام چل رہا ہے۔‘
عامر جیکسن نے بتایا کہ ’ایک روز پاکستان بازار تھانے سے کیس کے انویسٹی گیشن افسر کی فون کال آئی۔ پولیس افسر ایوب پٹھان نے عامر کے والد کو اطلاع دی کہ وہ مٹھائی لے کر پولیس تھانے پہنچیں، آپ کا بیٹا مل گیا ہے۔‘
اسحاق سیمسن کے بھائی عامر جیکسن کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کے اغوا ہونے کے تقریبا 37 دن یہ فون کال ہمارے گھر میں خوشی کا پیغام لائی تھی۔ والد، والدہ، میری بہنوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے دو رشتے داروں کو لے کر ہم پاکستان بازار تھانے کے لیے نکل پڑے۔ راستے سے مٹھائی کا ڈبہ لیا اور پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وہاں اسحاق کے ساتھ اغوا ہونے والا ہسپتال کا منیجر موجود تھا اور پولیس اس کا بیان ریکارڈ کررہی تھی۔ ہمیں گمان ہوا کہ شاید اسحاق کسی دوسرے کمرے میں ہے اور اس کا بھی بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔‘
’کچھ گھنٹے انتظار کے بعد جب تفتیشی افسر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ بازیاب ہونے والا شخص آپ کے سامنے ہے جس پر ہم نے کہا کہ یہ ہمارا بھائی نہیں ہے بلکہ یہ اس کے ساتھ کام کرنے والا ہسپتال کا منیجر ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ یہ ایک ہی شخص بازیاب ہوا ہے۔‘
عامر جیکسن نے بتایا کہ پولیس کے ان الفاظ سے والد کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ تھانے کے فرش پر بیٹھ گئے اور اپنے بیٹے کو یاد کرکے رونے لگے۔ ہم نے انہیں دلاسہ دلایا کہ ایک فرد کی بازیابی ہوگئی ہے، امید ہے اسحاق کو بھی جلد ہی بازیاب کرا لیا جائے گا۔‘
عامر جیکسن کے بقول جیسے جیسے دن گزرتے گئے پولیس کی توجہ اس کیس کی طرف کم ہوتی گئی۔ ’یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی شہر میں روز 10 سے 12 افراد کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیا جاتا تھا۔ لیکن ہمارے والد نے ہمت نہیں ہاری اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سماجی رہنما انصار برنی ٹرسٹ کے وکیل کے ذریعے عدالت میں مسنگ پرسن کا کیس درج کیا گیا اور عدالت سے بیٹے کی واپسی کے لیے اپیل کی گئی۔ اس دوران بازیاب ہونے والا منیجر تھائی لینڈ منتقل ہو گیا۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ اسے شامل تفتیش کیا جائے اور واپس پاکستان بلایا جائے۔ عدالت کے احکامات پر انٹر پول کے ذریعے ہسپتال کے منیجر کو پاکستان لایا گیا۔
ہسپتال کے منیجر نے پولیس کو بتایا کہ وہ اغوا کاروں کے ٹرک سے بھاگا ہے، اس نے کراچی سے بلوچستان کو ملانے والے علاقے نادرن بائی پاس کے قریب ٹرک سے چھلانگ لگائی اور خوش قسمتی سے وہ ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
عامر جیکسن نے بتایا کہ ’یہ کیس پولیس سے سی آئی اے میں منتقل ہوا اور پولیس کے کہنے پر اس کیس میں دو افراد کو نامزد کیا گیا لیکن اس دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ یہ اغوا کا کیس ہے اور مدعی نے دو افراد کو اس کیس میں نامزد کر دیا ہے، یہ اغوا برائے تاوان کا کیس ہے لہذا اس کیس کو مسنگ پرسنز سے خارج کیا جائے۔
’عدالت نے پولیس کی پیش کی گئی رپورٹ کی روشنی میں اس کیس کو مسنگ پرسنز کے کیس سے الگ کر دیا۔ ہمارے وسائل اتنے نہیں رہے کہ ہم الگ سے کوئی کیس لڑ سکتے تو پھر مجبوراً ہمیں حکومت کے اعلیٰ ایوانوں کے دروازے کھٹکھٹانا پڑے۔‘
عامر جیکسن کے مطابق انہوں نے گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ سے اپیلیں کی، ان کے دفاتر کے چکر لگائے، کئی بار درخواستیں دیں لیکن شنوائی نہ ہوئی۔
’اب نہ کوئی کیس ہے، نہ کوئی اور ذریعہ کہ بھائی کے بارے میں کچھ معلومات مل سکیں۔ بس دعا کرتے ہیں کہ ہمارا بھائی کسی طرح واپس آجائے۔ ہر سال اس کی سالگرہ مناتے ہیں، ہر خوشی اور غم کے موقع پر اسے یاد کرتے ہیں۔‘
عامر جیکسن نے بتایا کہ ان کے والد بیٹے کے غم میں روز جیتے اور روز مرتے تھے۔
’وہ مسلسل اپنے بیٹے کو یاد کرتے تھے، انہوں نے اس بارے میں کسی سے بھی بات کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اُن کے کئی کئی ٹیسٹ کرائے لیکن کسی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی۔ آنکھوں کے ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا کہ انہیں نہ رونے کی وجہ سے آنکھوں کا انفیکشن ہوا ہے جس سے ان کی آنکھوں کا پردہ متاثر ہوگیا ہے۔‘
اغوا ہونے والے اسحاق کے چھوٹے بھائی عامر نے بتایا کہ ’دو ماہ کی مسلسل تکلیف کے بعد اتوار کے روز ہمارے والد انتقال کر گئے۔ وہ آخری وقت تک اپنے بیٹے کی آمد کے منتظر تھے اور ان کی نظریں دروازیں پر لگی تھیں۔‘