کہانی ایک تصویر کی نہیں ایک جنریشن کی ہے، جنریشن بھی وہ جو پاکستان کو نوجوانوں کی آبادی والا سب سے بڑا ملک بناتی ہے۔
کہانی محض بیانیے کی نہیں، مقبولیت کی نہیں، متبادل بیانیے کی عدم دستیابی کی نہیں، انتخابات میں ہوئی ہار جیت کی نہیں، اقتصادی تنزلی کی نہیں، معاشرتی تقسیم کی نہیں، سیاسی شعور یا غیرشعور کی نہیں، نظام کی ڈھیلی پڑتی گرفت کی نہیں، عالمی منظر نامے اور پاکستان کی کم ہوتی اہمیت کی نہیں، حلال حرام، جائز ناجائز کی نہیں، سسٹم کے اندر سے جنم لینے والی انگڑائی کی نہیں، صحافتی بولیوں کی نہیں، سوشل میڈیا کے زور کی نہیں، اس پر عائد ہونے والی پابندیوں کی نہیں، بندے اٹھائے جانے کی نہیں، جوڑ توڑ کی نہیں اور زور شور کی بھی نہیں۔
بلکہ الجھے نظام کی بنیادوں میں پڑی دڑاروں سے لے کر ماضی کی نسبت حال کے بدلتے زاویوں کی ہے، یعنی کہانی عام فہم تبصروں کی نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ اور سنجیدہ ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیں
-
بند گلی سے نکلنے کا حل کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 858321
اس پیچیدگی اور سنجیدگی کو قدرے عام فہم انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے، بھٹو مقبول تھے، اتارے گئے، ضیا خود آگئے، تیسرا بیانیہ ہی نہ تھا۔ بھٹو تھے یا ضیا۔ افغان جہاد تھا، عالمی منظر نامے میں ملکی اہمیت بڑھ چکی تھی، ڈالر آرہے تھے۔ سیاہ سیاسی چہرہ کس قدر آلودہ تھا، کسی کو فکر ہی نہ رہی۔ اسی کے آس پاس نظام نے نواز شریف کو میدان میں اتارا۔ بی بی سامنے آئیں تو ان کے مقابلے میں ضیا کے بعد یہی نواز شریف برسر پیکار رہے۔ باریاں لیتے رہے۔ جمہوریت آلودہ ہوتی رہی۔ نظام کی گرفت البتہ مسلسل مضبوط ہوئی۔
مشرف آئے، پھر سے عالمی منظر نامے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ملکی اہمیت بڑھ چکی تھی، بی بی اور نواز شریف بیرون ملک تھے، کوئی تیسرا بیانیہ یا تیسری قوت نہ تھی۔ ڈالر آ رہے تھے، معیشت بہتر ہوئی۔ سیاسی بیانیے نیم بے ہوشی کے عالم میں محض جمائیاں لے رہے تھے۔ اس بیچ البتہ بی بی اور میاں صاحب صورتحال کو بھانپ کر باہمی تصادم کے بجائے سیاست اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے اکٹھے ہو چکے تھے۔ میثاق جمہوریت اسی تگ و دو کا نتیجہ ٹھہرا۔
سیاست اور جمہوریت توانا ہونے کی انگڑائی لینے لگی تو تیسری سیاسی قوت سامنے لائی گئی۔ اس کے اتارے جانے کے محرکات یہاں روایتی بھی تھے اور غیر روایتی بھی۔ تیسری قوت کا چہرہ عمران خان بنے۔ نظام نے دو بڑی سیاسی قوتوں کے سامنے تیسری قوت پر دست شفقت رکھنے کا فیصلہ کیا اور یوں ایک صفحے پر ہونے کا استعارہ متعارف ہوا۔
ایک صفحہ لمبی پلاننگ کے ساتھ کتاب کا دیباچہ بنا، لیکن کتاب کے ’پنے‘ بیچ بیچ میں سے پھٹنا شروع ہو گئے۔ ’پنے‘ پھٹنا شروع ہوں تو ظاہر ہے کتاب کی جلد بھی کمزور پڑ جاتی ہے اور اس بیچ جلد ساز نئی ترکیب متعارف کروانے میں جت جاتے ہیں۔

نئی ترکیب سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ نظام کپتان کی مخالف سمت میں ہے اور دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک نئے صفحے پر اکتفا کر چکا ہے۔ لیکن اس ہنگام کچھ روایتی زاویے یکسر بدل چکے تھے، نظام اور سیاسی جماعتیں اس بدلاؤ سے دانستہ یا غیردانستہ بے خبر رہیں۔ اور اب تو زاویوں کے بدلاؤ کے علاوہ اقتصادی اشاریے بھی دگر گوں ہو چکے ہیں۔
عالمی منظر نامے میں بھی وطن عزیز کی اہمیت وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہوئے تجربات کے ہنگام ہوا کرتی تھی اور اس بنا پر ان تجربات کو سامراجی طاقتوں کی آشیر باد بھی مہیا رہا کرتی تھی۔ یعنی اب ڈالر آرہے ہیں نہ کسی منظر نامے میں ہماری ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
کہانی کی پیچیدگی یہیں سے شروع ہوتی ہے، ماضی کی نسبت حکمران کی چھٹی پر قوم نے مٹھائی بانٹی نہ قوم کو ڈالر آتے دکھائی دیے۔ دو روایتی بیانیوں سے تنگ آئی عوام اس وقت تک نیا بیانیہ دل میں بسا چکی تھی۔
بیانیہ کپتان کا، سچا یا جھوٹا یہ بعد کی کہانی ہے۔ ماضی کے تمام تجربات میں قوم ہمیشہ مقتدرہ کے ساتھ بندھی رہی۔ ہلکی پھلکی تحریک تک برپا نہ ہونے دی گئی۔ لیکن یہاں سب سے اہم یہ مخصوص تکیہ بھی کمر سے سرک گیا۔
