Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیٹیکل انگیجمنٹ: ’کسی دن مسکرائیں گے کسی دن بات بھی ہو گی‘، اجمل جامی کا کالم

عمران خان اس جنگ میں دو اہم ستون یعنی سوشل میڈیا اور یوتھ کی اہمیت بھی بروقت بھانپ چکے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک مقبول پارٹی بِپھر گئی، چڑھ دوڑی، پھر اس سے نشان واپس لیا گیا، رہنما اندر کیے گئے، ناپسندیدہ قرار دیے گئے لیکن عوام نے انہیں پسندیدہ قرار دیا۔
چناؤ ہوا، سرکار بنی، مگر سیاسی استحکام اب اک خواب لگتا ہے۔ معاشی بدحالی کے ہنگام سیاسی تقسیم استحکام کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تقسیم کی وجوہات پر گھنٹوں بحث ہو سکتی ہے، تقسیم مگر گہری اور خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔
کپتان کے بیانیے سے آپ لاکھ اختلاف کیجیے، ان کی طرزِ سیاست پر پہروں تنقید کیجیے، لیکن کیا کیجیے کہ تقسیم زدہ معاشرے کا بڑا حصہ اس کے بیانیے کا داعی بن چکا۔
ووٹ کے عمل سے لے کر آواز کی گونج تک، یہ عقدہ اب کھُل رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بیانیے کی جنگ میں ہماری ریاست اور دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی اور ن لیگ دہائیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔
سنہ 2011 کا مقبول جلسہ ہوا تو عمران خان بیانیے کی جنگ کی اہمیت سمجھ چکے تھے، سمجھتے بھی کیوں نہ؟ یہ واحد سیاست دان ہیں جو سنہ 75 سے لے کر سن 2024 تک کیمرے کے لینز اور مقبولیت کے ساتھ مسلسل ہم قدم رہے ہیں۔
یہ بیانیے کی اس جنگ میں دو اہم ستون یعنی سوشل میڈیا اور یوتھ کی اہمیت بھی بروقت بھانپ چکے تھے۔ جبھی تو وہ کرپشن، امریکی غلامی اور معاشرتی ناہمواریوں کو جواز بنا کر مسلسل ایسے مقبول نعرے جنتا کو دیتے رہے جو ریاست مدینہ کے خواب پر منتج ہوتے رہے۔
مخالفین سے اس بیچ مسلسل ایک بڑی غلطی سرزد ہوتی رہی اور وہ غلطی تھی اس سکیم کے نتیجے میں جنم لینے والی نئی کلاس کی شناخت اور اس کا ادراک۔
دو چار برس پہلے تک تو ریاست اور یہی دو بڑی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو خیالی پلاؤ قرار دیتے رہے۔ بیانیے کی جنگ میں متبادل بیانیہ تشکیل دینے کے بجائے مقبولیت کو دھونس سے توڑنے کی سکیموں میں مصروف رہے۔
اس دوران ان کے خلاف بیانیہ توانا ہو چکا تھا، بیانیے کے نتیجے میں فرد کو سوشل میڈیا پر آواز مل چکی تھی۔ فرد اب روایتی میڈیا کے ذریعے اپنی آواز کی شناخت کا محتاج نہیں رہا تھا۔ سیاست اور ریاست اسی بابت ادراک کرنے سے قاصر رہے۔  یہی آج کا اصل المیہ اور حقیقی مدعا ہے۔
اس مدعے کا ادراک کیے بنا چناؤ کے ذریعے بننے والی ایسی سرکار کسی طور بھی سیاسی استحکام کی ضامن نہیں ہو سکتی۔  
نوجوانوں پر مشتمل اور سوشل میڈیا پر متحرک اس نئی سوشل کلاس کو سسٹم کا حصہ بنائے بنا استحکام عملی طور پر مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر اچھے برے دور حکومت میں ہر مؤثر اور توانا کلاس کسی نہ کسی طور سسٹم یا سرکار کا حصہ رہی اور اسی وجہ سے سسٹم اور معاشرہ لولا لنگڑا ہو کر بھی چالو رہا۔

نواز شریف کے پاس موقع ہے کہ وہ سیاسی خلا کو باہر بیٹھ کر پُر کریں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گدی نشین ہوں، سیاسی خاندان ہوں، کاروباری افراد ہوں، بیوروکریٹس ہوں، جج ہوں یا پھر معاشرے کا کوئی بھی اور توانا اور مؤثر طبقہ، کسی نہ کسی طور بہرحال طاقت میں حصہ دار رہا۔
نئی ابھرنے والی سوشل کلاس البتہ اب طاقت اور سسٹم کا حصہ نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسے حصہ دار بنائے بنا تقسیم دبے گی نہ آواز۔ انتقام چلے گا نہ نظام۔ یعنی
نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے
تو پھر حل کیا ہے؟
حل سے پہلے خلا کی نشاندہی ضروری ہے صاحب! خلا ریاست کی اپروچ میں بھی ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کے ہاں بھی۔ سرکار کے لائحہ عمل میں بھی اور نواز زرداری کی راج نیتی میں بھی۔
خلا کو پُر کرنے کے لیے پولیٹیکل انگیجمنٹ لازم ہوتی ہے۔ پولیٹیکل انگیجمنٹ کے بجائے اپوزیشن اتحاد سڑکوں پر آ رہا ہے اور سرکار چُپ سادھے کسی اور خلا میں گورننس کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
 پی ٹی آئی کی دستیاب وکیل قیادت کے جوہر آزما لیے گئے، سیاسی افراد پر مبنی نئی کمیٹی بھی سامنے آ چکی، احتجاجی تحریک کا جلوہ بھی دیکھ لیا گیا، خلا پھر بھی پُر نہیں ہوا۔
خلا مؤثر سیاسی شخصیات کے وجود سے پُر ہو گا۔ پرویز الہیٰ اور شاہ محمود قریشی اندر ہیں۔ فواد چوہدری خوش بختی سے باہر نکلے ہیں۔ ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف سہی مگر ان کا ایک خاص سیاسی بیک گراؤنڈ ہے۔ ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی سسٹم اور سیاست سے براہ راست اور بالواسطہ ربط میں رہا ہے۔ عمران خان ان سے جیل میں ایک دو بار مل چکے اور ان کی اہمیت کا ادراک بھی کر چکے۔
ناتجربہ کار دستیاب قیادت سیدھی مفاہمت کی بات کرتی ہے تو خان بوجوہ سیخ پا ہوتا ہے۔ فواد چوہدری جیسے تجربہ کار سیاسی افراد انگیجمنٹ کی بات شروع کریں گے تو یہ عمران خان اور ریاست دونوں پر ناگوار نہیں گزرے گی۔ وگرنہ علی امین گنڈا پور کے فارمولے انہیں مسلسل ہزیمت سے ہی دو چار کرتے رہیں گے۔

نئی ابھرنے والی سوشل کلاس البتہ اب طاقت اور سسٹم کا حصہ نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا چیلنج ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہمارے سیاسی پنڈت براہ راست مفاہمت کو حل قرار دیتے ہیں لیکن اس بیچ انگیجمنٹ کی اہمیت کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ انگیجمنٹ ہو گی تو سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے گا۔ انگیجمنٹ ہو گی تو مفاہمت یا کسی حل کی راہ نکلے گی۔
خاکسار کی ناقص رائے میں مفاہمت سے پہلے انگیجمنٹ کی جانب قدم بڑھانا ہوں گے، انگیجمنٹ کے لیے خلا پُر کرنا ہوں گے۔ خلا جو ریاست کے ہاں بھی ہیں اور سیاست کے ہاں بھی۔
نواز شریف ن لیگ کے صدر بننے جا رہے ہیں، ان کے پاس گولڈن چانس ہے کہ وہ اپنی سرکار اور جماعت کے ہاں پیدا ہوئے اس خلا کو اب باہر بیٹھ کر پُر کریں اور انگیجمنٹ کے لیے پہل کریں۔
جناب زرداری صدر بن چکے، ان کا مسکن اس خلا کو کمرہ بند کر سکتا ہے۔ کپتان اپنے وکیل کھلاڑی آزما چکے، سیاسی آل راؤنڈرز کو میدان میں اتاریں تاکہ پی ٹی آئی کے ہاں پیدا سیاسی خلا بھی پُر ہو سکے۔ خلا پُر ہوں گے تو انگیجمنٹ فطری طور پر لازم ہو جائے گی۔

خلا کو پُر کرنے کے لیے پولیٹیکل انگیجمنٹ لازم ہوتی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیٹیکل انگیجمنٹ اور سیاسی رابطہ کاری کے بیچ باریک فرق کو سمجھنے کے لیے قبلہ شامی صاحب کو فون کیا تو انہوں نے جواباً ماہر القادری کا ایک شہرہ آفاق شعر نذر کیا:
ابھی ان سے تعلق ہے نگاہوں سے نگاہوں تک
کسی دن مسکرائیں گے کسی دن بات بھی ہو گی
پوچھا یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ شامی صاحب فرمانے لگے:
ابھی ان سے تعلق ہے نگاہوں سے نگاہوں تک
(یہ ربط ہے۔۔۔) 
کسی دن مسکرائیں گے کسی دن بات بھی ہو گی
(یہ ہے انگیجمنٹ۔۔)

 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے اردو نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں

شیئر: