Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بند گلی سے نکلنے کا حل کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالم

عمر ایوب نے آئین و قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فوج کے حلف کو پڑھا اور پھر اس تناظر میں مذکورہ پریس کانفرنس کو صریحاً ایک سیاسی عمل قرار دیا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
سات مئی کو پاکستان فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس سے لے کر نو مئی تک سپہ سالار کے بیانات سے، تین دنوں کے اندر اندر فوج کی تحریک انصاف اور نو مئی پر پوزیشن مزید واضح ہو گئی۔
انتشار پسند قرار پائی تحریک انصاف سے بات چیت نہیں ہو سکتی، سے لے کر عام معافی مانگنے کی مانگ تک کے مطالبات اور پھر تحریک انصاف کے اس مدعے پر ردعمل نے سیاسی و غیرسیاسی ڈیڈلاک کو مزید گھمبیر بنا دیا۔
ماضی میں سیاسی جماعتیں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری سیاسی بیانات پر خاصا سنبھل اور ناپ تول کر ردعمل دیا کرتی تھیں، لیکن یہ شاید پہلا موقع ہے جب کسی جماعت یعنی پی ٹی آئی نے بھر پور طریقے سے ردعمل دیا ہو۔
ردعمل رؤف حسن کی پریس کانفرنس تک ہی محدود نہ رہا بلکہ گزرے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی تقریر نے آن دی فلور آف دی ہاؤس ردعمل کو پارلیمان کی کارروائی کا حصہ بنا دیا۔ عمر ایوب نے آئین و قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فوج کے حلف کو پڑھا اور پھر اس تناظر میں مذکورہ پریس کانفرنس کو صریحاً ایک سیاسی عمل قرار دیا۔ وہ یہاں رکے نہیں بلکہ اگلے ہی لمحے انہوں نے اس حلف کی خلاف ورزی کرنے پر آئین میں درج آرٹیکل چھ کا بھی حوالہ دے دیا۔
پی ٹی آئی کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے عمر ایوب نے حمود الرحمان کمیشن، اوجڑی کیمیپ، ایبٹ آباد کمیشن اور اے پی ایس حملہ کیس کی رپورٹس بھی پبلک کرنے کی مانگ کر ڈالی۔ چناؤ کے نتیجے میں ملے مینڈیٹ کا آن دی فلور آف دی ہاؤس بھرپور استعمال کرتے ہوئے عمر ایوب البتہ اسی آرٹیکل چھ اور فوجی حلف کے تناظر میں اپنے بزرگوار جنرل ایوب خان کا ذکر خیر کرنا بھول گئے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنی اس مانگ کا پرچار کرتے ہوئے اپنے بزرگوار پر بھی اسی حلف کی خلاف ورزی اور اسی آرٹیکل چھ کے نفاذ کا بھی مطالبہ کر ڈالتے۔ یقین جانیے عمر ایوب واقعی ہیرو ہوتے، مگر ہیچ آرزو مندی کہ ہمارے ہاں آئین کا نفاذ اسی وقت یاد آتا ہے جب سیاستدان اپوزیشن میں ہوں۔
بہرحال جیل میں بیٹھا کپتان ہو یا اس کی نمائندگی کرنے والے عمر ایوب ہوں، اب تک کے ردعمل سے واضح ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنی پوزیشن سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، اور کچھ ایسی ہی صورتحال پاک فوج کے بیانیے سے بھی واضح ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں مذاکرات یا بات چیت کی گنجائش بظاہر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ٹھہریے! کیا معاشی ابتری اور معاشرتی تقسیم کا شکار وطن عزیز مزید عدم استحکام اور افراتفری کا متحمل ہو سکتا ہے؟ جواب ہے ہرگز ہرگز نہیں!

ماضی میں سیاسی جماعتیں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری سیاسی بیانات پر خاصا سنبھل اور ناپ تول کر ردعمل دیا کرتی تھیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کی صورتحال ہی دیکھ لیجیے، بچپن میں پرفضا وادیوں کا سفر کرتے ہوئے جگہ جگہ چوک چوراہوں پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ موومنٹ کے بینرز اور نعرے درج دیکھا کرتے تھے، دہائیوں تک مقبوضہ وادی کی ’آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی اہل کشمیر کی یوتھ اور لیڈران اب جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے بینر تلے اپنے ہی حقوق کے لیے جدوجہد پر مجبور ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف کی سیاست سے لاکھ اختلاف کیجیے لیکن اب سڑکوں پر آنے والے شہری کسی خاص سیاسی نعرے کی بجائے ناانصافی کے خلاف اپنے حقوق کا علم بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکار میں شامل دہائیوں سے سیاسی اکھاڑے کے معروف پہلوان ان کے مقابلے میں چند سو افراد پر مشتمل اکٹھ کرنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آخر کیونکر سرکار اور ان کے ہمنوا ایسی عوامی تحاریک کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو رہے ہیں؟ پرتشدد جھڑپوں اور مظاہروں کے بعد پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کی سرکار کو بالآخر مظاہرین کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔ نوبت یہاں تک آئی ہی کیوں؟ کاش کوئی سوچے، کاش کوئی سمجھے، کاش کوئی جاگے۔۔ اے کاش۔۔!

پرتشدد جھڑپوں اور مظاہروں کے بعد پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کی سرکار کو بالآخر مظاہرین کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔ (فوٹو: کاشف خان فیس بک)

عارف علوی ہوں یا عمر ایوب، رؤف حسن ہوں یا بیرسٹر گوہر، فواد چوہدری ہوں یا پی ٹی آئی کا کوئی بھی منتخب یا غیرمنتخب نوجوان، سبھی عمران خان کے بیانیے کا پرچار کر رہے ہیں۔ پوزیشن سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اور تو اور اب انہیں ایوانوں میں بھی دستیاب شدہ مینڈیٹ کی بنیاد پر توانا آواز مل چکی۔ یہ آواز اب میڈیا پر بھی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی۔ جوابی بیانیہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ سرکار کی یہ حالت ہے کہ ذمہ دار وزرا سے کسی سیاسی مدعے پر بات چیت کے لیے رابطہ کیا جائے تو وہ ٹالنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ 
رانا ثنااللہ البتہ اعتراف کر رہے ہیں کہ خان ایک حقیقت ہیں اور گرینڈ ڈائیلاگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ اعتراف شکست اور اظہار بے بسی ہے، لیکن جو طوق سرکار گلے میں ڈال چکی اس کے ساتھ محض اعتراف سے پوزیشن مزید خراب ہوئی، حل نہیں ملے گا کیونکہ جواب میں خان بقول شخصے اب ’سپہ سالار کے نام پریم پتر رقم کر رہا ہے۔‘
کچھ دن پہلے تک خاکسار کی رائے تھی کہ ڈیل یا ڈھیل کی بجائے انگیجمنٹ کو راہ دی جائے اور اس سلسلے میں سیاسی افراد کے ذریعے رابطہ کاری شروع کی جائے تاکہ بات چیت کے لیے راہ نکالی جا سکے۔ لیکن حالیہ چند روز کے بیانات اور اس پر ردعمل نے اس راہ کو بھی بند گلی تک پہنچا دیا۔

رانا ثنااللہ البتہ اعتراف کر رہے ہیں کہ خان ایک حقیقت ہیں اور گرینڈ ڈائیلاگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

سیاست بہرحال ممکنات کا نام ہے تو اب بھی ایک حل باقی ہے۔ نواز شریف اور زرداری اگر دامن وسیع کرتے ہوئے براہ راست عمران خان کیساتھ ڈائیلاگ کی بجائے چھ رکنی اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی و دیگر اور حضرت مولانا کو انگیج کر لیں تو فوری طور پر عدم استحکام کی لہر میں ہلکا سا وقفہ آ سکتا ہے۔ فریقین کے مل بیٹھنے کی تصویریں  شانتی کی راہ نکال سکتی ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کے سربراہان اور نواز شریف اگر قائل ہوجائیں تو یقین جانیے اس سے شہباز سرکار، عمران خان اور ادارے کو بھی اپنی اپنی پوزیشن سے واپسی میں آسانی ہوگی۔ وگرنہ ہمارا دائروں کا سفر اب کسی بڑے سانحے کے مدار کی جانب گامزن ہے۔

شیئر: