آٹھ فروری کو صبح سویرے ایک دیہاڑی دار ووٹ ڈالنے گھر سے نکلتا ہے۔ یہ فیصل ٹاؤن میں واقع اپنے قریبی پولنگ سٹیشن جا کر جلد ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہاں پہنچتے ہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگی کیمپ پر رش نسبتاً کم ہے کیونکہ عموماً لیگی کیمپس دوپہر بارہ دو بجے کے بعد رش پکڑتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا پاکستان میں پی ڈی ایم ٹُو کا منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے؟Node ID: 835291
-
انتخابات 2024: کس جماعت کی کتنی خواتین کامیاب ہوئیں؟Node ID: 835766
تحریک انصاف کے ہاں البتہ خوب رش تھا۔ اس ووٹر کے پاس اپنے کوائف پہلے ہی سے موجود تھے۔ موبائل میں محفوظ کوائف ن لیگی کیمپ میں موجود ذمہ داران کو دکھائے کہ پرچی مل جائے۔ ووٹر کا سلسلہ نمبر چار سو تین تھا، ن لیگ کے عملے نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جناب ہمارے پاس تو ابھی تک پہلے 300 کی فہرست ہے، دوپہر تک شاید باقی بھی آجائے، ’تُسی نال والے کیمپ توں پرچی بنوا لوو‘۔
ووٹر کی یہ داستان چونکہ راقم خود سن چکا لہٰذا اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ ن لیگ نے کس تساہل پسندی سے چناؤ لڑا۔
اس کے برعکس دو مزید ووٹرز جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، ان سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے سات فروری کو ہی تمام معلومات حاصل کر کے موبائل فون میں محفوظ کر رکھی تھیں تاکہ بوقت ضرورت دقت نہ ہو۔
یہ وہی ن لیگ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پولنگ ڈے کی منیجمنٹ ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ مقامی پٹواریوں اور کونسلروں کے ساتھ بروقت روابط، حلقے کی ووٹر لسٹیں، ووٹر کو ووٹنگ ڈے پر رکشوں، لاریوں اور ڈالوں میں لاد کر لانا وغیرہ وغیرہ انہی کا کام ہوا کرتا تھا۔
لیکن اب کی بار ن لیگ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ پر شاید کچھ زیادہ ہی تکیہ کر بیٹھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ عوام کے ساتھ مناسب طریقے سے ’گل‘ بھی نہ کر سکی۔
ایک فاصلہ پیدا ہو چکا تھا۔ انتخابی مہم میں تاخیر، مرکزی رہنماؤں کی جانب سے جلسوں میں وہی موٹروے، وہی اورنج لائن، وہی لیپ ٹاپس اور ایٹمی دھماکے بیچے گئے۔

ن لیگ صدمے سے دو چار اس وقت ہوئی جب انہیں دوپہر دو بجے علم ہوا کہ ووٹر گھر سے نہیں نکلا، تب تک دیر ہو چکی تھی، موبائل بند تھے، سگنل ٹوٹ چکے تھے۔ مرکزی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاون میں بیٹھے اندرون لاہور کے نامی گرامی ورکرز تک کو علم نہ تھا کہ سگنل ٹوٹنے کی صورت میں متبادل حکمت عملی کیا اختیار کرنی ہے، جبھی وہاں بیٹھے ایک لیگی رہنما نے جب گلاب دیوی ہسپتال کے آس پاس لیگی ووٹر کی صورتحال جاننے کی کوشش کی تو وہاں موجود مقامی ذمہ دار نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پائین موبائل ای نئی لگ ریا، لوکاں نال رابطہ ای نئی ہو پا ریا۔‘
یہ چناؤ دراصل جذبے اور سہولت کاری کے بیچ تھا۔ جذبہ جیت گیا۔ مینڈیٹ نے واضح کر دیا کہ ن لیگی طرز سیاست اب مقبول نہیں رہی۔
خاکسار ایک عرصے سے تسلسل کے ساتھ کچھ حقائق ہر پلیٹ فارم پر رکھ رہا ہے کہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 80 لاکھ ہے اور اس میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ وہ ہیں جن کی عمر 18 سے 45 برس ہے۔ ملک بھر میں موبائل فون صارفین کی تعداد 18 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔
تحریک انصاف کے علاوہ کس سیاسی جماعت نے ان اعداد و شمار کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی پالیسی ترتیب دی؟ تحریک انصاف کی سیاست سے آپ لاکھ اختلاف کیجیے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ 18 سے 45 برس کی اکثریت کا سیاسی شعور گذشتہ دس پندرہ برس کی سیاست کے گرد بندھا ہوا ہے؟
ان دس پندرہ برسوں میں کس سیاسی جماعت نے اپنا بیانیہ ان نوجوانوں کے ہاں کامیابی سے رقم کیا؟ اس بیچ ن لیگ یا دیگر کی پالیسی کیا تھی؟ وہی اخبارات میں اشتہارات؟ وہی طویل پریس کانفرنسیں؟ وہی نام نہاد نعرے؟ کیا یہ سب اب بھی کارگر ہے؟
جواب ہے نہیں۔ زمانہ بدل چکا، میڈیم بدل چکے، ذہن بدل چکے، ابلاغ کے پیمانے بدل چکے، نعرے بدل چکے، عوامی نبض بدل چکی۔ ن لیگ کے لیے اب دیر ہو چکی۔
نتائج نے ثابت کیا کہ کس کا بیانیہ کتنا مقبول ہے، لیڈر جیل میں، بلا پویلین میں، ٹیم تتر بتر، پِچ مخالف ٹیم کی مرضی کی، لیکن کھلاڑیوں نے اپنی پرفارمنس سے بغیر بلے کے سنچری بنا ڈالی۔ وجہ؟ بیانیے کی کامیاب ترویج اور بیانیے کا گھر گھر میں گھر کر جانا ہے۔
