Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اُٹھا لو‘، لاپتہ صحافی احمد فرہاد کون ہیں؟

احمد فرہاد کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکریٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر اور صحافی احمد فرہاد گزشتہ ایک ہفتے سے لاپتہ ہیں۔ ان کی اہلیہ کے مطابق انھیں نامعلوم افراد نے بغیر وارنٹ گھر میں گھس کر اغوا کیا ہے۔
احمد فرہاد کی گمشدگی سے متعلق کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس بھی دیے ہیں۔ یہ کیس اب ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں بھی زیر بحث ہے جبکہ حکومتی سطح پر بھی ان کے ریمارکس کا جواب دیا گیا ہے۔
احمد فرہاد کون ہیں؟
احمد فرہاد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور شاعر ہیں۔
وہ پاکستان کے کئی نیوز چینلز جن میں نیو نیوز، سیون نیوز، بول نیوز، اے بی این اور آپ نیوز شامل ہیں، میں بطور نیوز ایڈیٹر اور پروڈیوسر کام کر چکے ہیں اور اب بھی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
صحافت اگرچہ ان کی روزی روٹی ہے لیکن ان کی وجہ شہرت ان کی شاعری ہے۔ وہ رومانوی شاعری تو کرتے ہیں لیکن انقلابی شاعری نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ان کی نظم ’یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اُٹھا لو‘ نے انھیں سوشل میڈیا پر مشہور کیا تھا۔ لوگ ان کے نام سے واقف تھے یا نہیں لیکن ان کا یہ کلام زبان زدعام رہا اور لاکھوں لوگوں نے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔
ایک ہفتہ قبل لاپتہ ہو جانے کے بعد ان کی یہ نظم ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور کئی اہم شخصیات سمیت عام صارفین نے بھی اسے شیئر کیا۔
احمد فرہاد انقلابی موضوعات کے علاوہ رومانوی شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا شعر ’غور سے دیکھو مجھے اور پھر کہو، کیسے کیسوں کو محبت کھا گئی‘ بھی بالخصوص نوجوانوں میں پسند کیا جاتا ہے۔
احمد فرہاد کی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں
احمد فرہاد سوشل میڈیا پر خاصے متحرک تھے۔ اپنے لاپتہ ہونے سے قبل وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحت ہونے والے احتجاج کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ معلومات بھی پوسٹ کر رہے تھے جبکہ اس حوالے سے لوگوں کے بیانات اور اپنی جانب سے تبصرے بھی کر رہے تھے۔ ان کے تبصرے ریاستی اور کشمیر حکومت کی پالیسیوں پر کھلی تنقید پر مبنی تھے۔

شیئر: