Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عام شہریوں کا تحفظ کیا جائے‘، رفح حملے کے بعد بائیڈن کا اسرائیل سے مطالبہ

رفح میں پناہ گزین پر حملے میں کم سے کم 45 افراد ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی فوج کی جانب سے رفح پر حملے اور درجنوں افراد کی ہلاکت کی بعد جو بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رفح پر حملے کے بعد چند ساتھی ڈیموکریٹس نے بھی بائیڈن انتظامیہ سے اسرائیل کو فوجی سامان کی ترسیل روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نیشل سکیورٹی کونسل کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کو حماس کے پیچھے جانے کا حق ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں حماس کے دو سینیئر بھی ہلاک ہوئے جو عام اسرائیلی شہریوں پر حملوں کے ذمہ دار تھے، مگر جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ اسرائیل کو وہ تمام احتیاطی اقدامات کرنے چاہییں جن سے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنے۔‘
جو بائیڈن کو ان دنوں اپنی پارٹی کے اندر سے ہی اسرائیل کی مدد میں کمی لانے کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے جو رفح پر اس اسرائیلی حملے سے قبل بھی موجود تھا۔
نمایاں ڈیموکریٹ قانون ساز الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے پیر کے روز اسرائیلی حملے کو ’ایک ناقابل دفاع ظلم‘ قرار دیا تھا۔
ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایک پوسٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ’یہ وقت ہے صدر کے لیے اپنے الفاظ پر قائم رہنے کا اور فوجی امداد معطل کرنے کا۔‘
اسی طرح ایک اور نمائندے ’ایانہ پریسلے نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’پچھلی رات رفح سے ہولناک تصویریں سامنے آئیں۔ امریکہ کب تک اسرائیلی فوج کے ساتھ کھڑا رہے گا جبکہ وہ فلسطینی بچوں کو ذبح کر رہی ہے۔‘

تعلیمی اداروں میں شدید احتجاج کے باعث بھی بائیڈن انتظامیہ کو دباؤ کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی ایوان کانگریس میں موجود واحد فلسطینی نژاد نمائندہ راشدہ طالب نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ’نسل کشی کا جنونی‘ قرار دیا۔
نیتن یاہو نے پیر کو کہا تھا کہ ’اس حملے کا مقصد عام شہریوں کو ہلاک کرنا نہیں تھا مگر ایک افسوسناک غلطی ہوئی۔‘
نیشنل سکیورٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت اسرائیلی فوج اور موقع پر موجود حکام کے ساتھ مسلسل بات چیت کر رہی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہاں کیا ہوا۔
روئٹرز کے ایک حالیہ پول میں تقریباً آدھے ڈیموکریٹس نے اس طریقہ کار سے اختلاف کیا جو اسرائیل حماس جنگ کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اپنایا گیا۔
اسی طرح ہفتوں تک امریکہ کے تعلیمی اداروں میں جنگ کے خلاف احتجاج نے بھی امریکی حکومت پر دباؤ میں اضافہ کیا اور مستقل جنگ بندی کے مطالبات نے جو بائیڈن کو اپنی انتخابی مہم کے دوران دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔

شیئر: