Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرحدی گزرگاہ کی بندش، اشیا خورونوش کی قلت کے خلاف ماشکیل سے کوئٹہ تک لانگ مارچ

شرکا 600 کلومیٹر کا سفر طے کرکے کوئٹہ پہنچے تو سیاسی و سماجی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے ان کا استقبال کیا (فوٹو: عبدالوحید)
ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر ماشکیل کے رہائشیوں کی جانب سے پاکستان ایران سرحدی گزرگاہ کی بندش اور اشیا خورونوش کی قلت کے خلاف شروع کیا گیا احتجاجی لانگ مارچ کوئٹہ پہنچ گیا۔
لانگ مارچ کے شرکا 600 کلومیٹر سے زائد سفر طے کرکے کوئٹہ پہنچے تو مقامی افراد، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے ان کا استقبال کیا۔
لانگ مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل ہونے والی بارشوں کی وجہ سے ماشکیل کا صوبے کے دیگر شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہونے اور حکومت کی جانب سے ایران کے ساتھ سرحدی گزرگاہ کو بند کرنے کی وجہ سے علاقے میں اشیا خورونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
لانگ مارچ کے شرکا حکومت سے پاکستان ایران سرحدی گزرگاہ کو بحال کرنے، ماشکیل کو صوبے کے باقی شہروں سے سڑک کے ذریعے منسلک کرنے کے منصوبوں پر فوری عمل درآمد اور دیگر مطالبات کر رہے ہیں۔
مارچ کی قیادت کرنے والے ماشکیل کے رہائشی جیئند خان ریکی نے اردو نیوز کو بتایا کہ لانگ مارچ میں تقریباً 20 افراد نے حصہ لیا جس میں 60 سال کے بزرگ سے لے کر 11 سال کا ایک بچہ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر انہوں نے پیدل ہی طے کیا اس دوران ان کے ایک ساتھی کی طبیعت خراب ہوئی تو انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ اسی طرح مارچ کے شرکا کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔
جیئند خان ریکی کا کہنا ہے کہ ہم نے احتجاج کا یہ سخت اور مشکل راستہ مجبوری میں اپنایا ہے۔ ماشکیل میں ہم نے ایک ماہ تک احتجاجی دھرنا دیا لیکن ہمارے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو ہم نے پیدل لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کا مقصد حکومت کو جگانا ہے۔ ماشکیل ایران سے متصل بلوچستان کا سرحدی شہر ہے جس کی 70 ہزار آبادی گذشتہ کئی ماہ سے خوراک کی قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ لوگ تین سے پانچ گنا زیادہ قیمت پر اشیا خورونوش خریدنے پر مجبور ہیں۔

مظاہرین کے مطابق ’ایران کے ساتھ سرحدی گزرگاہ بند کرنے سے علاقے میں اشیا خورونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے‘ (فوٹو: عبدالوحید)

’ماشکیل میں آٹے کے 40 کلو تھیلے کی قیمت 10 ہزار یعنی فی کلو 250 روپے اور مرغی کی فی کلو قیمت 1800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح کدو، بھنڈی اور عام سبزی بھی 500 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔‘
جیئند خان کے بقول اس صورت حال میں شہر کے بیشتر رہائشی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہوگئے ہیں۔زیادہ تر افراد اپنے بچوں کو صرف ایک وقت کی روٹی ہی مجبوری میں کھلا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع واشک کے سرحدی شہر ماشکیل کو یہ مشکلات اپنے جغرافیائی محل وقوع اور حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے پیش آرہی ہے۔  
33 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ضلع واشک رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے۔ماشکیل اس کا چھوٹا سا سرحدی شہر ہے لیکن اسے پاکستان کے باقی اضلاع سے ملانے کے لیے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں، لہٰذا یہاں کے رہائشیوں کا زیادہ تر انحصار ایران پر رہا ہے۔
جیئند خان کے مطابق ماشکیل پاکستان سے ایک طرح سے کٹا ہوا ہے۔ حکومت نے 70 برسوں میں ایک پختہ سڑک نہیں بنائی اس لیے لوگ ہر بنیادی ضرورت کے لیے ہمسایہ ملک ایران کی طرف دیکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چار سال قبل کورونا کی وبا کے دوران حکومت نے ماشکیل کو ایران سے ملانے والی مزہ سر نام کی سرحدی گزرگاہ کو بند کردیا جس کی وجہ سے ایران سے اشیا خورونوش آنا بند ہوگئی ہیں۔

لانگ مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ ’ماشکیل میں سرحدی گزرگاہ لوگوں کے لیے لائف لائن ہے حکومت اسے فوری بحال کرے‘ (فوٹو: عبدالوحید)

ماشکیل کے لوگ آٹا، دال، لوبیا، چینی، گوشت اور دیگر روزمرہ ضرورت کی اشیا چاغی کے راستے کوئٹہ اور دیگر شہروں سے لاتے تھے۔چند ماہ قبل ہونے والی بارشوں کے بعد یہ راستہ بند ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماشکیل کو چاغی کے علاقے نوکنڈی سے ملانے والا راستہ ایک دلدلی علاقے ہامون بگ سے گزرتا ہے جو بارشوں کے بعد دلدل میں بدل جاتا ہے اور گاڑیاں اس میں پھنس جاتی ہیں اس طرح یہ راستہ ناقابل استعمال ہو جاتا ہے۔
ماشکیل کے تاجر نصیر احمد کے مطابق ’راستے بند ہونے کی وجہ سے تاجر اشیا خورونوش متبادل کچے اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے لاتے ہیں جو بہت طویل ہیں اور سامان پہنچنے میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اس لیے ٹرانسپورٹرز بہت زیادہ کرایہ وصوک کرتے ہیں۔‘
’پہلے اگر ایک بوری کا کرایہ 500 روپے دینا پڑتا تھا تو اب کئی ہزار روپے دینا پڑتا ہے جس کا اثر اشیا کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔‘
جیئند خان ریکی کے مطابق تین سال قبل ماشکیل سے نوکنڈی تک 103 کلومیٹر سڑک بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا لیکن تین ارب روپے سے زائد جاری ہونے کے باوجود اس پر پانچ فیصد کام بھی نہیں ہوا۔اس منصوبے کو فوری مکمل کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرحدی شہروں میں آمدروفت اور تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ ماشکیل جیسے شہر میں سرحدی گزرگاہ لوگوں کے لیے لائف لائن ہے حکومت اسے فوری بحال کرے۔

شیئر: