Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صوبہ پنجاب کی جیلوں میں جرائم پیشہ گینگ کیسے کام کرتے ہیں؟

دنیا بھر میں جیلوں میں قید جرائم پیشہ افراد گینگز تشکیل دیتے ہیں۔ فائل فوٹو: فری پکس
جیلوں کے اندر گینگز کا ہونا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ جیلیں جرائم پیشہ افراد کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن جیل کے اندر بیٹھ کر معاملات کو چلانا ایک ایسا چیلنج ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آئے دن درپیش رہتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد احسن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقع پیش آیا کہ جب ان کی گاڑی چوری ہوئی تو جیل کے اندر سے کسی شخص کا فون آیا اور گاڑی ملنے کی اطلاع دی لیکن اس کے بعد وہ ایک اور مسئلے کا شکار ہو گئے۔
محمد احسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی گاڑی کو چوری ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہو گئے تھے اور مقدمہ بھی درج تھا لیکن پولیس صرف تسلیاں دے رہی تھی۔ 
’اس صبح میرا فون بجا اور ایک اجنبی شخص نے پوچھا، کیا احسن صاحب بات کر رہے ہیں، آپ کی سفید کرولا گم ہوئی تھی؟ یہ نمبر تھا؟ میں ہاں میں ہاں ملاتا گیا تو اس نے بتایا کہ لاہور کی کیمپ جیل میں بدھ ساڑھے گیارہ بجے ملاقات کے لیے آجانا۔ آپ کی گاڑی کا پتا چلا لیا گیا ہے۔‘
’میرے ذہن میں دو خیال چل رہے تھے۔ ایک یہ تھا کہ تفتیشی افسر کو بتاؤں اور دوسرا یہ کہ ایک دفعہ خود جا کے بندے سے مل لوں، وہ تو جیل میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے کہاں جانا ہے۔ گاڑی کی کچھ خبر مل جائے تو پولیس کو بھی بتا دوں گا۔‘
محمد احسن مقررہ تاریخ پر کیمپ جیل لاہور پہنچے، جس نام کے بندے سے ملاقات کرنے کا کہا گیا تھا اس سے ملاقات بھی ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملاقات عام قیدیوں سے ذرا بہتر انداز میں ہوئی اور اس شخص نے بتایا کہ گاڑی مل گئی ہے لیکن اگر واپس چاہیے تو چھ لاکھ روپے دینے ہوں گے۔
’جیل سے باہر اس نے ایک اور شخص سے رابطہ کرنے کا کہا۔ وہ لوگ مجھ سے ایسے رابطے میں تھے کہ یقین ہو گیا گاڑی انہی کے پاس ہو گی۔ میں نے چھ لاکھ روپے بھی جس طریقے سے بتایا گیا تھا دے دیے۔ اور پھر وہ سب غائب ہو گئے۔‘

لاہور کی جیل میں موجود ایک گینگ شہریوں سے پیسے ہتھیانے میں ملوث تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے بعد محمد احسن نے جب پولیس کو بتایا اور کیمپ جیل میں اس شخص سے دوبارہ ملنے کے لیے گئے تو فیاض عرف کالا نام کا کوئی قیدی اس جیل میں، اس بیرک نمبر اور دیگر تفصیل کے ساتھ موجود ہی نہیں تھا۔ نہ ہی ملاقات کا کوئی ریکارڈ تھا۔ یہ بڑی اچنبھے کی بات تھی۔
کیمپ جیل میں ہر کچھ مہینے کے بعد ایسا ہی ایک واقعہ ہو رہا تھا اور لوگوں سے ایک ہی طریقے سے پیسے نکلوائے جا رہے تھے۔
کیمپ جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ گلزار بٹ  بتاتے ہیں کہ ’ایک فوج کے ریٹائرڈ کرنل صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور ان سے دس لاکھ روپے ہتھیا لیے گئے۔ لیکن جس شخص کا نام اور بیرک بتائے گئے تھے ایسا کوئی قیدی تھا ہی نہیں۔‘
’اب اس طرح کے کئی کیس سامنے آ چکے تھے تو اس معاملے کو پولیس کے سپرد کر دیا گیا اور جیل کے اندر تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ بالآخر ہم ان افراد تک پہنچ گئے۔ ان میں دو افراد جیل کے اندر ہی تھے اور دو باہر تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ مختلف تھانوں میں گاڑی چوری کی ایف آئی آر کی تفصیل حاصل کرتے اور خود ہی مدعی سے رابطہ کر لیتے تھے۔ انہوں نے کوئی 60 ستر لاکھ کا فراڈ کیا تھا۔ وہ سیٹ ایسا لگاتے تھے کہ لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے تھے۔ نوسرباز گینگ تھا وہ۔‘
حال ہی میں لاہور پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والا ملزم فیضان جب کوٹ لکھپت جیل میں تھا تو پولیس کے مطابق اس کے جیل کے اندر ہی کریمینل گینگز سے رابطے ہوئے جنہوں نے اس کو ضمانت پر باہر نکلوایا اور پھر افغانستان سے ٹریننگ لے کر وہ پاکستان آیا اور لاہور ہی میں دو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔
فیضان جیل کے اندر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے کیسے چڑھا یہ ایک سوال ہے اور اب سسٹم خود ہی اس سوال کا جواب بھی دے رہا ہے۔
دو روز قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے فیضان کے کیس کے بعد صوبہ بھر کی جیلوں کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں عام قیدیوں اور خطرناک قیدیوں کی تخصیص کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔

جرائم پیشہ گینگز جیل کے اندر سے اپنے تمام معاملات چلا رہے ہوتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز کو دستیاب اس مراسلے کے مندرجات کے مطابق پنجاب کی تمام جیلوں میں عام قیدیوں کو خطرناک قیدیوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور آنے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ہر قیدی کو اس کے جرم کے مطابق ایسی بیرک میں رکھا جائے گا جس میں صرف اسی طرح کے جرائم کے سزایافتہ افراد ہوں گے۔
مراسلے میں ان احکامات پر فوری طور پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کیا پنجاب کی جیلوں میں کام کرنے والے گینگز کا ڈیٹا موجود ہے؟
سابق جیل سپرنٹنڈنٹ گلزار احمد کے خیال میں جیلوں میں کوئی منظم گینگ مستقل طور پر کام نہیں کر رہے ہیں۔
’چھوٹے موٹے محدود گروپ بنتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تو تمام جیلوں میں جیمرز ہیں فون بھی نہیں سنا جا سکتا۔ دہشت گردی کے جو مجرم اور ملزم ہیں وہ ہمیشہ ہی خطرہ رہے ہیں اور ان کے لیے اب دو ہائی سکیورٹی جیلیں بن چکی ہیں، ساہیوال اور میانوالی میں۔ اب وہ جدید جیلیں ہیں تو ایسی کوئی بات ہو گی بھی تو اس کے چانسز محدود ہوں گے۔‘
سرکاری مراسلے میں گینگز کے خطرے سے بچنے کے اقدامات تو بتائے گئے ہیں البتہ ایسے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکے کہ پنجاب کی جیلوں میں جن گینگز سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں ان کی تعداد کتنی ہے۔

شیئر: