برطانیہ کے سنڈے ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے مشیر اوفِر فاک نے کہا کہ ’بائیڈن کی تجویز سے ہم نے اتفاق کیا، یہ کوئی اچھی ڈیل نہیں ہے لیکن ہم تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ منصوبہ اچھا نہیں تاہم اسرائیل اسے تسلیم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کو ایک نسل کش دہشت گرد تنظیم کے طور پر تباہ کرنے‘ سمیت اسرائیلی شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اسرائیل نے اتوار کو غزہ کی پٹی میں حماس پر بمباری کی ہے۔ عالمی ثالث کاروں نے دونوں فریقوں سے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر اتفاق کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کی تجویز صدر جو بائیڈن نے پیش کی تھی۔
امریکی صدر نے جمعے کو اسرائیل کی جانب سے حماس کے عسکریت پسندوں کے لیے تجویز کردہ تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کی تفصیل جاری کی۔ امریکی صدر کے مطابق یہ معاہدہ غزہ میں باقی یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گا اور تقریباً آٹھ ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔
بائیڈن نے کہا تھا کہ مجوزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں ’مکمل اور حتمی جنگ بندی‘، غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور خواتین، بزرگوں اور زخمیوں سمیت متعدد یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جس کے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہو گی اور اسرائیلی افواج غزہ سے انخلا کریں گی۔
تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کا عمل شروع ہو گا۔ جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد تعمیر نو کے لیے دہائیاں درکار ہوں گی۔
بائیڈن نے پچھلے کئی مہینوں کے دوران جنگ بندی کی متعدد تجاویز کا خیرمقدم کیا ہے، جن میں سے ہر ایک کا اسی طرح کا فریم ورک ہے جس کا انہوں نے جمعے کو خاکہ پیش کیا تھا تاہم اُن معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
فروری میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل نے رمضان تک لڑائی روکنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن ایسی کوئی جنگ بندی عمل میں نہیں آئی۔
اسرائیل کا اصرار رہا ہے کہ وہ حماس کے تباہ ہونے تک لڑائی کے لیے صرف عارضی جنگ بندی پر بات کرے گا جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے مستقل خاتمے تک ہی یرغمالیوں کو آزاد کرے گی۔