Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیتن یاہو کے اتحادیوں کی حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی

اسرائیلی اپوزیشن نے منصوبے کی توثیق کی تاہم بنیامین نیتن یاہو کے اتحادیوں نے اعتراض کیا (فوٹو:اے ایف پی)
قطری، مصری اور امریکی ثالثوں نے اسرائیل اور حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے مجوزہ جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قطری، مصری اور امریکی ثالثوں کا یہ بیان سنیچر کو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کے شہر رفح پر ٹینکوں اور توپ خانے سے حملہ کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس تجویز کو ’ایک پائیدار جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا روڈ میپ‘ قرار دیا ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو مصر ہیں کہ ان کا ملک اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک وہ اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتا۔
سنیچر کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی ان شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی: حماس کی فوج اور حکومتی صلاحیتوں کی تباہی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اب اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں۔‘
دوسری جانب عسکریت پسند تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ جمعے کو صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کو ’مثبت انداز میں دیکھتی ہے۔‘
قطر، امریکہ اور مصر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات میں بطور ثالث وہ حماس اور اسرائیل دونوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو حتمی شکل دیں۔‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ مجوزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں ’مکمل اور حتمی جنگ بندی‘، غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور خواتین سمیت متعدد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جس کے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اس مرحلے میں غزہ سے امریکی یرغمالیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا، اور مارے گئے یرغمالیوں کی باقیات ان کے اہل خانہ کو واپس کر دی جائیں گی۔ پہلے مرحلے کے دوران انسانی امداد میں اضافہ ہوگا، ہر روز 600 ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں مرد فوجیوں سمیت باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہوگی اور اسرائیلی افواج غزہ سے انخلا کریں گی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’اور جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہتی ہے، یہ عارضی جنگ بندی، اسرائیلی تجاویز کے الفاظ میں ’مستقل طور پر دشمنی کا خاتمہ‘ بن جائے گی۔‘

حماس نے کہا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کو ’مثبت انداز میں دیکھتی ہے۔‘ (فوٹو:اے ایف پی)

تیسرے مرحلے میں غزہ کی ایک بڑی تعمیر نو کے آغاز کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد تعمیرِ نو کے لیے دہائیاں درکار ہوں گی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعے کو اردن، سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ سے اس معاہدے پر زور دینے کے لیے بات کی اور سنیچر کو قطری، مصری اور اماراتی وزراء سے گفتگو کی۔
ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کو ’قوی امید ہے کہ تازہ ترین پیش رفت پائیدار امن کے لیے فریقین کے درمیان معاہدے کا باعث بنے گی۔‘
اسرائیلی اپوزیشن نے منصوبے کی توثیق کی تاہم بنیامین نیتن یاہو کے اتحادیوں نے اعتراض کیا۔
نیتن یاہو نے اصرار کیا کہ ’اسرائیل کی طرف سے منصوبے میں شامل کی گئی تجاویز کے مطابق ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقلی ’مشروط‘ تھی اور اسے اپنے جنگی مقاصد کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اسرائیلی اپوزیشن کے رہنما یائر لاپڈ نے کہا کہ ’حکومت جو بائیڈن کی اہم تقریر کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور اسے مجوزہ معاہدے کو قبول کرنا چاہیے۔‘
وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے کہا ہے کہ اگر وہ جنگ بندی کی تجویز کی توثیق کرتے ہیں تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
بین گویر نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ان کی پارٹی ’حکومت کو تحلیل کردے گی۔‘ جبکہ بیزلیل سموٹریچ نے کہا کہ ’ہم حماس کے تباہ ہونے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

شیئر: