Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں 35 لاکھ افراد جبری مشقت کا شکار ہیں: انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن

حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایل او کے 136 کنونشنز میں سے پاکستان نے صرف 37 کی توثیق کر رکھی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)  اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں 35 لاکھ افراد سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، کان کنی اور شپ یارڈ جبری مشقت کے بڑے گڑھ ہیں۔
آئی ایل او کے مطابق پاکستان جبری مشقت لینے والا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ عالمی لیبر مارکیٹ میں پاکستان لیبر فورس کے لحاظ سے نواں بڑا ملک ہے۔
رپورٹ کے مطابق جبری مشقت پر قابو پانے کے لیے اگرچہ کافی اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان میں جبری مشقت لینے والے مالکان غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہیں جس وجہ سے آئی ایل او فریم ورک کے تحت ان سے رابطہ کرنے اور ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
اسی طرح آئی ایل او کے 136 کنونشنز میں سے پاکستان نے صرف 37 کی توثیق کر رکھی ہے۔ اس وجہ سے بعض جگہوں پر آئی ایل او کا دائرہ کار بھی محدود ہو جاتا ہے۔
چونکہ آئی ایل او ایک سفارتی ادارہ ہے اور خود کسی جگہ پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتا بلکہ رہنما اصول تیار کرتا ہے جس کی روشنی میں حکومتیں عمل درآمد کرتی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت کے حقیقی اعداد و شمار معلوم کرنے کے لیے کوئی سروے نہیں کیا گیا، اس لیے حکومت پاکستان بالخصوص ادارہ شماریات کو تجویز کیا ہے کہ وہ اپنے لیبر سروے میں جبری مشقت کو بھی شامل کر لے۔
اس حوالے سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاکستان میں سربراہ گیئر ٹانسٹول نے بتایا کہ اس وقت ہماری سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ حکومت پاکستان سے آئی ایل او کے زیادہ سے زیادہ کنونشنز کی توثیق کرنے کے لیے کہیں، خاص طور پر پروٹوکول 29 کی جس کے تحت جبری مشقت کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اس وقت دو کروڑ نوجوان ہیں جو کام کاج کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن مہارت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک کے اندر اور بیرون ملک اچھی ملازمت نہیں مل رہی۔‘
’ہماری کوشش ہے ہے کہ ہم ان نوجوانوں کو مہارت سکھانے میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنے والے چند برسوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھنے والی ہے اس لیے ہمیں تعلیم اور مہارت کے شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
گیئر ٹانسٹول نے مزید کہا کہ ’میں نے بلوچستان میں کانوں میں جا کر حالات دیکھے ہیں جو کہ انتہائی نامساعد ہیں۔ اس لیے پاکستان بھر میں بالخصوص کان کنی، شپ یارڈ، ٹیکسٹائل، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے افراد کے لیے کام کی جگہ کا ماحول بہتر بنانا ہے۔‘
آئی ایل او پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی کل لیبر فورس کا آدھا حصہ گھروں میں بیٹھا ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں عورتوں کے کام کرنے کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے یا پھر عورتوں کے کام کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اگر ان کو بہتر مواقع فراہم کیے جائیں تو صورت حال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔‘
’ہم خواتین کے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی کر رہے ہیں انہیں کام کرتے وقت ہراسانی سمیت کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

آئی ایل او کے سربراہ گیئر ٹانسٹول نے کہا کہ ’پاکستان میں اس وقت دو کروڑ نوجوان ہیں جو کام کاج کی عمر کے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: آئی ایل او)

ایک سوال کے جواب میں آئی ایل او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جبری مشقت کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں کافی مثبت ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا دارومدار برآمدات پر ہے اور یورپی خریدار بھی پاکستانی صنعت کاروں پر زور دیتا ہے کہ وہ جبری مشقت، بچوں سے مشقت نہ لینے اور کام کرنے کی جگہ کے ماحول کو سازگار بنانے کو یقینی بنائیں گے۔ حکومت بھی ان عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر ردعمل دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں وفاقی سطح پر محنت کی وفاقی وزارت موجود ہے لیکن پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔‘
’وفاقی حکومت آئی ایل او سمیت دیگر ممالک اور تنظیموں سے معاہدے کرتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کی ذمہ داری صوبوں کی ہے۔ جس وجہ سے کافی مشکلات آتی ہیں۔‘ 

شیئر: