سنیل دت ریڈیو سیلون میں کام کر رہے تھے جب ان کی ملاقات ہدایت کار رمیش سہگل سے ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
یہ بالی وڈ کی سال 2015 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ویٹنگ‘ کا منظر نہیں ہے جس میں اداکار نصیرالدین شاہ نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا جن کی بیوی مہینوں سے کوما میں ہے مگر وہ اس کے صحت یاب ہونے کے منتظر ہیں۔
یہ طلسماتی محبت کی ایک حقیقی کہانی ہے، بالی وڈ کے ایک ایسے جوڑے کی کہانی جو صرف اپنی اداکاری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
یہ امریکہ کے ایک ہسپتال کا منظر ہے جہاں بالی وڈ پر راج کرنے والی اداکارہ نرگس دت زیر علاج ہیں۔ وہ چار ماہ سے کوما میں ہیں مگر ڈاکٹروں کے بارہا کہنے کے باوجود ان کے پتی دیو سنیل دت ڈاکٹروں کو نرگس دت کا وینٹی لیٹر ہٹانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ نرگس صحت یاب ہو جاتی ہیں اور دونوں انڈیا واپس لوٹ آتے ہیں۔
بالی وڈ کے لیجنڈ اداکار سنیل دت اور نرگس دت کی محبت کا آغاز کچھ یوں ہوا گویا ان کی یہ پریم کتھا ستاروں پر لکھی گئی ہو۔
یہ سال 1956 کے اوآخر کا ذکر ہے۔ بالی وڈ کی یادگار فلم ’مدر انڈیا‘ کی شوٹنگ جاری ہے جب سیٹ پر اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔ فلم میں نامور اداکارہ نرگس مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔
اس وقت جہلم کے خوبرو نوجوان اداکار سنیل دت بے خطر آگ میں کود پڑے اور نرگس کو یوں بچا لائے کہ ان کی حقیقی زندگی کے ہیرو قرار پائے اور ان کے دل میں محبت کا ایسا شعلہ روشن کیا کہ دونوں اداکار فلم کی ریلیز کے ایک سال بعد 11 مارچ 1958 کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے جنہیں موت نے ہی ایک دوسرے سے جدا کیا۔
بالی وڈ کے لیجنڈ اداکار سنیل دت آج ہی کے روز سال 1929 کو جہلم کے نواحی گائوں نکہ خورد کے ایک ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں فسادات پھوٹے تو اداکار کے آنجہانی والد کے مسلمان دوست یعقوب نے اپنی دوستی کا فرض ادا کیا اور پورے دت خاندان کو بحفاظت مشرقی پنجاب پہنچا کر ہی دم لیا۔ اس کا ذکر اداکار نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کیا تھا۔
سنیل دت کئی دہائیوں بعد پاکستان میں جب اپنے آبائی گائوں آئے تو لوگوں نے ان کا پرتپاک انداز سے استقبال کیا۔ ان کی آمد پر جہلم اور نواح میں بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے گئے تھے، اداکار نے معروف ویب سائٹ ’ریڈف ڈاٹ کام‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’مختلف ٹیلی ویژن چینلوں والے موجود تھے۔ گاؤں والوں سے جب میں نے یہ استفسار کیا کہ وہ مجھ سے اس قدر لگاؤ کا اظہار کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کے بزرگوں کی وجہ سے ہے جو یہاں رہتے تھے اور ان کو بہت زیادہ عزت دیتے تھے۔ وہ اچھے لوگ تھے اور ہمارے مذہب کا احترام کرتے تھے۔ وہ جب درگاہ کے قریب آتے تو احتراماً گھوڑوں سے اتر جاتے اور پیدل سفر طے کرتے۔ انہوں نے ہمیں بہت زیادہ عزت دی تو ہم کیوں نہ ان کو عزت دیں؟‘
اداکار سنیل دت ان دنوں ریڈیو سیلون میں کام کر رہے تھے جب سال 1953 میں ان کی ملاقات ہدایت کار رمیش سہگل سے ہوئی جو ان کی آواز کے اُتار چڑھاؤ اور مردانہ وجاہت سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔
انہوں نے اداکار کو اپنی فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ میں مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کر لیا۔ سنیل بھی انہی کا دیا ہوا نام ہے کیونکہ اداکار کا نام بلراج تھا اور ان دنوں چونکہ بالی وڈ میں بلراج ساہنی بھی منظرنامے پر موجود تھے چنانچہ اداکار کو ان کا نیا نام اور یوں نئی شناخت ملی۔
یہ وہ وقت تھا جب نرگس کا شمار بالی وڈ کی صف اول کی اداکاراؤں میں کیا جاتا تھا۔ ان کی والدہ جدن بائی حسین معروف گائیکہ اور بالی ووڈ کی ابتدائی خواتین میوزک کمپوزرز میں سے ایک تھیں۔
نرگس نے اگرچہ چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر سال 1935 میں فلم ’تلاشِ عشق‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا مگر انہوں نے سال 1943 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تقدیر‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔
ہدایت کار محبوب خان کی فلم ’انداز‘ نے نرگس کو نئی پہچان دی جبکہ راج کپور کی فلم ’آوارہ‘ نرگس دت کی فنی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی جس کے بعد وہ ’شری 420‘ اور ’چوری چوری‘ جیسی کامیاب فلموں میں دکھائی دیں۔ یہ وہ ماہ و سال تھے جب ان کے اداکار راج کپور کے ساتھ محبت کے ہر سو چرچے تھے۔
راج کپور پہلے سے ہی شادی شدہ تھے مگر نرگس ان کی محبت میں ڈوب چکی تھیں اور ان کی دوسری بیوی بننے کے لیے بھی تیار تھیں۔ وہ راج کپور پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی ہر فلم میں کام کرنے پر تیار ہوتی رہیں مگر یہ یکطرفہ محبت زیادہ عرصے نہ چل سکی۔
اداکارہ ڈپریشن کا شکار ہو گئیں اور اسی دوران ’مدر انڈیا‘ کی شوٹنگ کا آغاز ہوا جب سیٹ پر آگ بھڑک اُٹھی تو سنیل دت نے کسی ہیرو کی طرح اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے نرگس کی جان بچائی۔
سنیل دت خود بھی آگ سے جھلس گئے اور کئی روز تک شدید بخار میں تپتے رہے۔ اس دوران نرگس نے دن رات ان کا خیال رکھا اور یوں وہ ایک دوسرے کے قریب آئے۔
یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دونوں کی عمروں میں محض پانچ دنوں کا فرق تھا۔ اداکارہ نرگس کی تاریخ پیدائش یکم جون 1929 کی ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہی ہے کہ نرگس کے والد موہن بابو کا راولپنڈی کے ایک رئیس خاندان سے تعلق تھا، یوں وہ بھی پنجابی پس منظر رکھتی تھیں۔
’مدر انڈیا‘ بالی ووڈ کی چند یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور ایسی پہلی فلم تھی جس میں عورت کا کردار عام ڈگر سے ہٹ کر تھا۔ اس فلم کی سوویت یونین سے لے کر لاطینی امریکا تک نمائش ہوئی۔
نرگس دت کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا جبکہ اس فلم کو غیرملکی زبانوں کے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ شادی کے بعد بھی نرگس فلموں میں آتی رہیں اور اس زمانے کی ان کی یادگار فلموں میں ’رات اور دن‘ اہم ہے جس پر انہیں بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ ملا۔
سنیل دت حقیقی زندگی میں ہی ہیرو نہیں تھے بلکہ وہ بڑے پردے پر بھی خود کو ’ہیرو‘ ثابت کرنے میں کامیاب رہے اور ’سادھنا‘، ’سجاتا‘، ’گمراہ‘ اور ’مجھے جینے دو‘ ایسی کامیاب فلموں میں نظر آئے۔
ان کی کامیابی کا یہ سفر ’وقت‘، ’خاندان‘، ’میرا سایہ‘، ’پڑوسن‘، ’ارادھنا‘ اور ’دو راستے‘ جیسی بلاک بسٹرز فلموں میں بھی جاری رہا۔
یہ وہ وقت تھا جب بالی ووڈ کی تاریخ کے پہلے سپر سٹار راجیش کھنہ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا اور بہت سے اداکار پس منظر میں چلے گئے تھے جن میں سنیل دت بھی شامل تھے مگر انہوں نے سپرہٹ فلم 'ہیرا' کے ذریعے واپسی کی اور ان کا یہ سفر اسی کی دہائی کے اختتام تک جاری رہا جس کے بعد وہ کیریکٹر ایکٹر کے طور پر نظر آنے لگے۔
سنیل دت نے سال 1981 میں اپنے بیٹے سنجے دت کو لانچ کرنے کے لیے فلم ’راکی‘ پروڈیوس کی جو باکس آفس پر کامیاب رہی مگر اس فلم کی ریلیز سے تین روز قبل نرگس وفات پا گئیں اور اپنے بیٹے کے فلمی کیریئر کو کامیابی سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکیں۔
سنیل دت کا قریباً پانچ دہائیوں پر محیط طویل کیریئر سال 2003 میں ریلیز ہونے والی فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ پر ختم ہوا جس میں ان کے صاحب زادے سنجے دت نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے کچھ عرصہ بعد مئی 2005 میں اداکار چل بسے۔
انہوں نے ایک کامیاب اننگز کھیلی۔ وہ بالی وڈ کے ان شروعاتی اداکاروں میں سے ایک تھے جو سیاست میں بھی کامیاب رہے اور انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ کی کابینہ کا حصہ رہے۔
سنیل دت نے ایک باپ، ایک شوہر اور سب سے بڑھ کر ایک محبوب کا کردار اس کامیابی سے ادا کیا کہ ان کا ذکر دیومالائی داستانوں کے طلسماتی کرداروں کی طرح کیا جاتا ہے اور کیا بھی کیوں نہ جائے کہ انہوں نے محبت کرنے کا حق ادا کر دیا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب نرگس کوما میں تھیں اور ان کے بچ جانے کی اُمید نہ تھی۔ سنیل دت کے بہت سے دوستوں نے ان سے کہا کہ جب کوئی فرد کوما میں ہو اور آپ اس سے باتیں کریں تو وہ آپ کی باتیں سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ گھنٹوں نرگس سے باتیں کیا کرتے اور بالآخر وہ کوما سے باہر آ گئیں۔
سنیل دت نے اس بارے میں انڈین اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ان سے گھنٹوں بات کیا کرتا، ان سے انڈیا کے بارے میں بات کرتا اور یہ کہ لوگ کس طرح ان کی صحت کے بارے میں پوچھنے کے لیے پیغام اور ٹیلی گرام بھیج رہے ہیں اور کس طرح تمہارے بچے تمہیں یاد کر رہے ہیں۔ میں پہروں بات کیا کرتا مگر یہ نہیں جانتا کہ کیسے مگر وہ زندگی میں واپس لوٹ آئی اور میری جانب دیکھا اور مسکرا دی۔‘
معروف اداکارہ سیمی گریوال نرگس کی صحت یابی کے بعد ان کی انڈیا واپسی پر ان سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، نرگس جی نے کہا کہ ’میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے پتی کو دعا کرتے ہوئے دیکھا۔ سیمی میں بہت خوش قسمت ہوں۔ کیا میں خوش قسمت نہیں ہوں؟‘
نرگس ہی نہیں سنیل دت بھی خوش قسمت تھے جنہوں نے جسے چاہا اسے پالیا اور زیست کی آخری سانس تک دونوں نے ایسا ساتھ نبھایا کہ امر ہو گئے۔