Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایوان میں حمایت عوام میں تنقید، پیپلز پارٹی کیا کھیل کھیل رہی ہے؟

شازیہ مری کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے حکومت کے ساتھ بات کی مگر ہماری توقع کے مطابق نتائج نہیں آئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں میں مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ان دنوں اپنے ہی ووٹوں سے بنائی گئی وفاقی اور صوبائی حکومت پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہے۔
 اگرچہ پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہ رویہ رہا ہے کہ وہ حکومتی امور اور پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے باوجود گاہے گاہے ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہے جس سے وہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ عوامی مفادات کی محافظ ہے۔
تاہم حال ہی میں انہوں نے کچھ اس طرح کی سیاسی حکمت عملی اپنائی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے اور متنازع امور میں حکومت کا ساتھ دینے کے باوجود عوامی سطح پر اس کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہی ہے۔
اسمبلی میں بل نہیں روکا، بعد میں پریس کانفرنس کر دی
اس معاملے کا آغاز صوبہ پنجاب میں ہتک عزت بل کے صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہوا جس کو روکنے کے لیے تو پیپلز پارٹی نے کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس بل کے منظور ہو جانے کے بعد اس پر تنقید شروع کر دی۔
 پھر جب یہ بل حتمی منظوری کے لئے گورنر ہاؤس بھیجا گیا تو پیپلز پارٹی کے نو منتخب گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اس بل کے معاملے پر کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
تاہم جب اس کی منظوری کا وقت آیا تو وہ رخصت پر چلے گئے اور اپنے قائم مقام گورنر سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان، جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، کو اس بل پر دستخط کا موقع فراہم کر دیا۔   
پیر کو جب اس قانون کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس بل کے حوالے سے ان کی جماعت پیپلز پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی۔
 انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت یہ بل واپس کروانے کی کوشش کرے گی اور اس کے خلاف عدالت بھی جا سکتی ہے۔
حسن مرتضیٰ نے بجٹ کے حوالے سے بھی اپنی جماعت سے مشاورت نہ کرنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ مریم نواز کی حکومت میں کسان مشکلات کا شکار ہیں۔ 

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی یہ دہری پالیسی عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے اپنا رہی ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)

 پنجاب کا بیانیہ وفاق میں
پیپلز پارٹی یہ بیانیہ منگل کو اسلام آباد لے آئی اور اس کے سینیئر رہنما سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے شکایت کر رہے ہیں کیونکہ بجٹ کے معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’حکومت کا فرض ہے کہ وہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اگر آئی ایم ایف نے شرائط طے کی ہیں تو حکومت کو ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔‘
ان کی پریس کانفرنس کے فوری بعد بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس کے بعد ان کی ترجمان شازیہ مری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ نے پارٹی قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاقی حکومت کے رویے کی وجہ سے ہمیں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے جن باتوں کا معاہدہ کیا تھا ان پر عمل نہیں کیا۔‘
 بلاول نے حکومت سے بات کی مگر نتائج نہیں آئے
شازیہ مری نے بھی بجٹ کے معاملے پر پی پی پی کو اعتماد میں نہ لینے کی شکایت کی اور کہا کہ ان کی جماعت کی کوشش تھی کہ صورت حال اس نہج پر نہ آئے۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’مریم نواز کی حکومت میں کسان مشکلات کا شکار ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’چیئرمین (بلاول بھٹو) نے حکومت کے ساتھ بات کی مگر ہماری توقع کے مطابق نتائج نہیں آئے۔‘
شازیہ مری نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس تاخیر سے بلایا گیا اور اس اجلاس کے دوران وزیراعلٰی سندھ نے اپنا مقدمہ لڑا۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے ’بلوچستان اور پنجاب کو کیا دیا ہے؟ کیا یہ حکومت چاہتی ہے کہ پی پی احتجاج کرے۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شہباز شریف کو ہمارا ادراک ہوگا لیکن پنجاب سے ہماری پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے بہت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔‘
شہباز، زرداری کا بجٹ اور معیشت پر تبادلہ خیال
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس وقت پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا یہ اجلاس ہو رہا تھا عین اسی وقت ایوان صدر میں وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کی ملاقات ہو رہی تھی۔
ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’وزیراعظم نے آصف زرداری کے ساتھ وفاقی بجٹ، چین کے دورے اور ملک کی مجموعی معاشی اور مالی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور صدر مملکت نے وزیرِاعظم کو ملکی ترقی اور معاشی اہداف کے حصول میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ’بجٹ پر عوامی ردعمل شدید ہوا تو پی پی پی کابینہ میں شمولیت کے لیے مزید وقت لے سکتی ہے‘ (فائل فوٹو: سینیٹ)

باہر کچھ، اندر کچھ؟
تو کیا پیپلز پارٹی عوام کے لیے کچھ اور ایوانوں کے اندر کچھ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے اور جب اس کی درمیانے درجے کی قیادت حکومت پر تنقید کر رہی ہوتی ہے تو اعلٰی قیادت بند کمروں میں معاملات طے کر رہی ہوتی ہے؟
اس بارے میں جب خورشید شاہ سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دہرے معیار کی سیاست نہیں کرتی۔
’ہم حکومت کے ساتھ کوئی بارگین نہیں کر رہے۔ ہمیں بجٹ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہتک عزت کے بل کا ہمیں پتا ہی نہیں تھا اور یہ اچانک اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔‘
خورشید شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا ہے اور بجٹ پر لائحہ عمل کا فیصلہ اس اجلاس میں ہو گا۔
’ہم مشورہ کریں گے کہ بجٹ پر حکومت کا ساتھ دینا ہے کہ نہیں اور اس کے بعد فیصلہ ہو گا۔‘
’پیپلز پارٹی کا ایجنڈا ساکھ بہتر بنانا ہے‘
تاہم سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی یہ دہری پالیسی عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے اپنا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے بجٹ پر اعتماد میں نہ لینے کی شکایت کر رہی ہے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

طویل عرصے سے پیپلز پارٹی کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اگرچہ مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اپنی ساکھ بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے۔
’پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ بجٹ کے بعد مہنگائی بڑھے گی اور عوامی رائے حکومت کے خلاف ہو گی۔ اس لیے وہ ابھی سے اس طرح کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس سے نہ صرف اس پر تنقید نہ ہو بلکہ اس صورت حال کا اس کو الٹا فائدہ ہو۔‘
یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اب کھل کر حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور بجٹ کے بعد حالات دیکھ کر وہ مستقبل کی سیاست کا فیصلہ کریں گے۔
اگر بجٹ پر عوام کا شدید ردعمل نہ آیا اور اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے تو ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کابینہ میں شامل ہو جائے۔ دوسری صورت میں وہ کابینہ میں شمولیت کے لیے چھ ماہ تک کا وقت لے سکتی ہے۔‘
کابینہ میں شامل نہیں ہو رہے، بجٹ میں پھنسے ہیں: خورشید شاہ
خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت ابھی بھی ان کی مرضی کی وزارتیں دے رہی ہے اور انہیں اس کے لیے کوئی سیاسی کھیل کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’وزارتیں تو وہ ہمیں اب بھی دے رہے ہیں، ہم ان پر دباؤ ڈال کر اور بارگین کر کے کیا لیں گے۔ ہمارا ایسا کوئی ایجنڈا نہیں، نہ ہی ہم ابھی کابینہ میں شمولیت کی بات کر رہے ہیں۔ ابھی تو ہم بجٹ میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

شیئر: