Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جائیداد کے تنازعات: خیبر پختونخوا میں 5 ماہ کے دوران 140 قتل

اراضی کے 90 فیصد مقدمات میں فریقین ایک ہی خاندان یا گھر کے افراد ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں سال جائیداد کے تنازعات میں 1158 ملزمان گرفتار ہوئے جبکہ پشاور میں سب سے زیادہ 22 افراد اراضی کے تنازعے پر قتل کیے گئے۔
حالیہ کچھ عرصے میں صوبے میں اراضی تنازعات کے کیسز بڑھ گئے ہیں، جائیداد کے تنازعات میں فریقین کی لڑائی میں ہر سال درجنوں جانیں چلی جاتی ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 2024 میں جنوری سے مئی تک قتل کے مجموعی طور پر ایک ہزار 76 مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں 140 واقعات اراضی تنازعات کے شامل ہیں۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق جائیداد تنازعات اور لڑائی جھگڑے کے مختلف واقعات میں 200 سے زائد شہری زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
ان واقعات میں اب تک پولیس 1158 ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔ پولیس کی رپورٹ میں ضلع پشاور اراضی کے تنازعات میں سرفہرست ہے، جہاں 22 شہری قتل ہو چکے ہیں۔
جائیداد کے تنازعے میں ضلع بنوں میں 12، مردان میں 10، چارسدہ  اور صوابی میں نو، نو اور نوشہرہ میں آٹھ  قتل کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔
پشاور میں 10 مرلے زمین کے لیے  پانچ افراد قتل 
پشاور کے علاقے چمکنی میں گذشتہ ماہ 24 مئی کو 10 مرلے کی زمین کے تنازعے پر دو فریقین میں فائرنگ ہوئی جس میں پانچ افراد موقع پر دم توڑ گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔
پولیس کے مطابق چچا زاد بھائیوں میں وراثتی پلاٹ پر کئی سالوں سے تنازع چلا آ رہا تھا، فریقین کے درمیان جرگے بھی ہوئے مگر تنازع حل نہ ہو سکا۔
اراضی تنازعات حل کیوں نہیں ہوتے؟
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ شاہد علی یفتالی کے مطابق وراثتی جائیداد سب سے زیادہ متنازع بن جاتی ہے بالخصوص جب بیٹی یا بہن کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے۔ 
ان کی رائے ہے کہ جب زمین کا ایک حصہ بہن یا بیٹی کو نہیں ملتا تو اس کا شوہر یا بچے پھر دعویٰ کرتے ہیں جو پھر تنازع کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور جب بات لڑائی جھگڑے پر پہنچتی ہے تو یہ معاملہ پھر کریمینل کیس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

جائیداد کے تنازعات میں فریقین کی لڑائی میں ہر سال سینکڑوں جانیں چلی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایڈووکیٹ شاہد یفتالی کے مطابق اگر رائج قوانین کے مطابق وراثت کی تقسیم پر عمل کیا جائے تو تنازع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
 ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ جائیداد خریدوفروخت کے بعد متنازع ہو جاتی ہے، جب  فریقین پراپرٹی پر دعویداری کرتے ہیں اور کچھ کیسز تو عدالتی فیصلے کے بعد بھی حل نہیں ہوتے بلکہ قتل تک بات پہنچ کر تنازع مزید سنگین ہو جاتا ہے۔
ایڈو کیٹ شاہد یفتالی نے کہا کہ اراضی کے 90 فیصد مقدمات میں فریقین ایک ہی خاندان یا گھر کے افراد ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں جرگے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم خون بہنے سے پہلے اگر تنازع حل ہو تو بات آگے نہیں بڑھتی بلکہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جاتا ہے۔
جائیداد کے تنازعات کے حل میں پولیس کا کیا کردار ہے؟ 
پشاور کے ایس پی سٹی ظفر خان نے اردو نیوز کو اپنے موقف میں بتایا کہ ایسے تمام (سول ڈسپیوٹ) کیسز ڈی آر سی (ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل) کو منتقل کر دیے جاتے ہیں جہاں ڈی آر سی کے ممبرز فریقین کو سن کر قانون کے مطابق اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی آر سی کے غیرجانبدار ممبرز میرٹ پر فیصلہ سناتے ہیں جس میں پولیس کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔
ایس پی سٹی کے مطابق ڈی آر سی اپنا فیصلہ سفارش کی شکل میں پولیس کو بھجواتی ہے جس کے اوپر پھر عمل درآمد ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا بعض کیسز میں ڈی آر سی تنازع کو باقاعدہ حل کرکے پولیس کو مطلع کرتی ہے جس کے بعد کیس ختم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جائیداد کے تنازعات بھی ڈی آر سی کو ریفر کیے جاتے ہیں۔ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے معاملات بات چیت سے حل ہو جائیں۔

کچھ جائیداد خریدو فروخت کے بعد متنازع ہوجاتی ہے، جب  فریقین پراپرٹی پر دعویداری کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ضم قبائلی علاقوں میں اراضی کے تنازعات 
خیبر پختونخوا پولیس کے لیے سب سے اہم چیلنج ضم قبائلی اضلاع میں درپیش ہے جہاں لینڈ سیٹلمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے اراضی تنازعات سب سے زیادہ رونما ہوتے ہیں۔
پولیس کے ایک سینئیر افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ قبائلی علاقوں میں اراضی کے تنازعات 30 سے 40 سالوں سے چلے آرہے ہیں بعض علاقوں میں یہ تنازع جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے جس میں پورا قبیلہ بھی شریک ہوتا ہے۔
انہوں نے درہ آدم خیل کی مثال دے کر بتایا کہ ان علاقوں میں اراضی کے تنازع میں ایک دوسرے کے خلاف دو قوموں کے باشندے مورچہ زن ہو کر لڑائی لڑتے ہیں جو کئی مہینوں تک چلی جاتی ہے۔ ان لڑائیوں میں کئی قیمتی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔
پولیس افسر کی رائے کے مطابق ایسے کیسز کوعدالت کی جانب سے فوری نمٹانا چاہیے کیونکہ ان میں تاخیر ہونے سے تنازع خونریزی کی طرف چلا جاتا ہے۔ 

شیئر: