بنگلہ دیش کی جیل میں درجنوں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکانے والے جلاد شاہ جہان بویا انتقال کر گئے۔
بنگلہ دیش نیوز کی رپورٹ کے مطابق 71 سالہ شاہ جہان شہید سہروردی ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔
بنگلہ دیش پولیس کی جانب سے ان کے انتقال کی تصدیق کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
’’مضبوط اعصاب‘ ‘اور’’اعلیٰ اخلاقی کردار‘‘ والے جلاد کی تلاشNode ID: 413521
-
پھانسیاں دینے کا ریکارڈ قائم کرنے والے مصری جلاد کا انتقالNode ID: 560756
شیر بنگلہ نگر پولیس کے سب انسپکٹر موشیئر اعظم کا کہنا ہے کہ ’شاہ جہان بویا جیل سے رہائی کے بعد جادوچر کے علاقے میں کرائے کے ایک گھر میں رہ رہے تھے اور سینے میں درد اٹھنے کے بعد ان کو ہسپتال لے جایا گیا تھا اور علاج کے دوران اتوار کو سہ پہر ساڑھے تین بجے وہ چل بسے۔‘
شاہ جہان بویا کی میت ضروری قانونی کارروائی کے بعد ان کی بہن فیروزہ کے حوالے کر دی گئی ہے اور ان کو پالاش کے علاقے اچھاکھالی میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
شاہ جہاں بویا خود بھی ایک قتل کے الزام میں پکڑے گئے تھے جبکہ ان پر دیگر کیسز بھی تھے، تاہم جیل میں انہیں جلاد کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئی تھیں اور وہ پچھلے برس 18 جون کو رہا ہوئے تھے اور تب تک کئی درجن لوگ ان کے ہاتھوں دنیا سے جا چکے تھے۔
’ہر پھانسی کے بعد مزیدار کھانا ملتا تھا‘
انہیں ہر پھانسی کے بعد گائے اور مرغی کے گوشت کے علاوہ پُلاؤ بطور انعام دیا جاتا جبکہ ہر بار ان کی 42 سالہ مجموعی قید کے دورانیے میں بھی رعایت دی جاتی رہی۔
ان کی رہائی کے وقت فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شاہ جہان بویا کے ساتھ بات چیت کی اور اس کی رپورٹ جاری کی تھی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر دی جاتی ہے۔
مارکسسٹ انقلاب کے حامی
مارکسسٹ انقلاب کے بارے میں کئی کتابیں پڑھنے اور بھرپور علم رکھنے والے شاہ جہان بویا 1970 میں اس باغی تنظیم کا حصہ بنے جس کا خیال تھا کہ حکومت پڑوسی ملک انڈیا کی کٹھ پتلی ہے اور اس کو گرا دینا چاہیے۔
ان کو 1979 میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ٹرک ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 42 سال کی سزا سنائی گئی۔
جلاد کیسے بنے؟
12 برس تک چلنے والے ٹرائل کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جیل میں جلاد کا کام کرنے والوں کو فرسٹ کلاس ملتی ہے اور جب انہوں نے ایک قیدی جو جلاد کی خدمات بھی انجام دیتا تھا، کو دیکھا کہ چار دوسرے قیدی اس کا مساج کر رہے تھے تو بویا نے اپنے آپ سے کہا کہ ’جلاد تو بہت طاقتور شخصیت ہوتا ہے، کیوں نہ یہی کام شروع کر دیا جائے۔‘
اس سے اگلے روز ہی بطور جلاد کام کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔

جیل حکام نے پیشکش قبول کر لی اور کچھ عرصہ بعد ان کو اپنی پہلی ڈیوٹی نبھانے کا ٹاسک سونپا گیا۔
پہلی پھانسی، ’کلمہ پڑھا اور رویا بھی نہیں‘
وہ 80 کی دہائی تھی جب بطور جلاد کے نائب انہوں نے پہلے شخص کو پھانسی پر چڑھایا۔
انہوں نے اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے کچھ روز بعد ایک اور شخص کو پھانسی دی جا رہی تھی تو اس نے سکون سے کلمہ پڑھا۔
’اس نے صرف کلمہ پڑھا اور رویا بھی نہیں۔‘
’پھانسی سے قبل بخشش کی دعا کرائی جاتی ہے‘
انہوں نے بتایا کہ جب ایک بار بنگلہ دیش کے صدر کی جانب سے کسی قیدی کی رحم کی اپیل مسترد ہو جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔
پھانسی دیے جانے کا حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد قیدی کے گھروالوں کو آخری ملاقات کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل قیدی کو غسل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس کو سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔

’اسی طرح موت سے قبل اپنی پسند کا کھانا کھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔‘
پھانسی سے قبل ایک مسلمان مولوی قیدی کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرواتا ہے۔
’وارڈن کے اشارے پر لیور کھینچ دیتا‘
اس کے بعد شاہ جہان نے تھوڑا وقفہ کیا اور کہا ’ہم قیدی کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں اور سر پر کالے رنگ کے کپڑے کا تھیلا چڑھا دیتے ہیں۔‘
’اس کے بعد گلے میں پھندہ ڈالا جاتا ہے اور کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘
اس کے بعد آخری مرحلے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی وارڈن ہاتھ میں پکڑے رومال کو نیچے کرتا ہے میں لیور کھینچ دیتا ہوں۔‘
یہ باتیں بتاتے ہوئے انہوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ انہیں اس پر کوئی افسوس بھی ہوتا ہے۔
جیل حکام کی جانب سے مجموعی طور پر شاہ جہان بویا سے 26 پھانسیاں لگوائی گئیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ 60 سزاؤں کا حصہ رہے۔
