Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امبانی سے آئی سی سی تک‘، ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو اصلی ٹرافی کیوں نہیں دی جاتی؟

انڈین کرکٹ ٹیم 11 سال بعد آئی سی سی ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ٹی20 ورلڈ کپ2024 جیتنے کے بعد انڈین کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز سے واپس اپنے ملک پہنچ چکی ہے۔ 
ورلڈ کپ کے اختتام پر سمندری طوفان کے باعث باربڈوس میں پھنس جانے والی انڈین ٹیم جمعرات کی صبح دہلی ایئرپورٹ پہنچی جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 
دہلی پہنچنے کے بعد ٹیم کو ایک ہوٹل میں منتقل کیا گیا جس کے بعد انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ٹیم کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔
جمعرات کی شام انڈین ٹیم اپنی وکٹری پریڈ کے لیے دہلی سے ممبئی ایئرپورٹ پہنچی جہاں ان کے طیارے کو واٹر کینن سیلوٹ پیش کیا گیا۔ 
وکٹری پریڈ کے لیے خصوصی کھلی چھت والی بس کا انتظام کیا گیا تھا جس پر سوار ہو کر انڈین ٹیم وانکھیڈے سٹیڈیم پہنچی۔ 
پریڈ کے دوران ٹیم کی بس ممبئی کی مرین ڈرائیو سے ہو کر گزری جہاں لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر بس میں سوار انڈین پلیئرز ٹرافی تھامے جشن مناتے رہے۔ 


ممبئی کے مرین ڈرائیو پر لاکھوں لوگوں نے انڈین ٹیم کا استقبال کیا

چیمپئن ٹیم کو ملنے والی ٹرافی نقل ہوتی ہے؟ 

11 سال کے طویل انتظار کے بعد انڈین کرکٹ ٹیم آئی سی سی ٹرافی گھر لانے میں کامیاب تو ہوگئی ہے، مگر سوشل میڈیا پر اکثر صارفین اس بات کو لے کر پر تجسس ہیں کہ آیا جو سلور کی بنی ٹرافی انڈین ٹیم لے کر آئی ہے وہ اصلی ہے یا نقلی؟
حقیقت یہ ہے کہ انڈین ٹیم جو ٹرافی اپنے ساتھ لائی ہے وہ اصلی آئی سی سی ٹرافی نہیں بلکہ اس کی ہی ایک نقل ہے۔ یہ صرف انڈیا کیساتھ نہیں بلکہ ہر آئی سی سی چیمپئن ٹیم کے ساتھ ہوتا ہے اور ایسا آغاز سے ہی ہوتا آرہا ہے۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اپنے ٹورنامنٹ کی اصلی ٹرافی صرف میچ کے بعد ہونے والی تقریبات اور فوٹوشوٹ کے لیے فراہم کرتا ہے جس کے بعد اصلی ٹرافی کو واپس لے کر ٹیم کو اپنے ملک لے جانے کے لیے اسی ٹرافی کی کاپی یعنی نقل فراہم کی جاتی ہے۔ 
ٹرافی کی نقل ہوبہو اصل ٹرافی کی طرح ہی بنائی جاتی ہے اور اسے متعلقہ ٹورنامنٹ کے لوگو کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ 
آئی سی سی ٹورنامنٹ جیتنے والی ہر ٹیم نقلی ٹرافی کے ساتھ وطن واپس آتی ہے جبکہ اصلی ٹرافی آئی سی سی کے دبئی ہیڈ کوارٹر میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔

ٹیم کو آئی سی سی ٹرافی رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ہوتی؟

ایسا صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر بڑے سپورٹس ٹورنامنٹس میں بھی ہوتا ہے جہاں جیتنے والی ٹیم کو اصلی ٹرافی رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر فٹبال کے فیفا ورلڈ کپ میں بھی 20 ملین ڈالر مالیت کی ٹرافی جیتنے والی ٹیم کو فراہم نہیں کی جاتی۔ 
اس کی ایک بڑی وجہ ہوتی ہے اور وہ ہیں سکیورٹی خدشات۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرافیز کو صرف ٹورنامنٹس تک محدود رکھا جاتا ہے اور ٹورنامنٹ سے قبل اس کو ورلڈ ٹوؤر کے لیے بھی بھیجا جاتا ہے۔ 
جہاں تک جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کی بات ہے انہیں میڈلز سے نوازا جاتا ہے جو اصلی ہوتے ہیں اور ان کی ملکیت رہتے ہیں۔

دھیروبھائی امبانی سے آئی سی سی تک، ورلڈ کپ ٹرافیز کا سفر

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ٹی 20 ورلڈ کپ 2007 میں شروع کیا تھا، اس سے قبل کرکٹ کا ون ڈے ورلڈ کپ ہی کھیلا جاتا تھا۔ 
کرکٹ کی دنیا میں ورلڈ کپ کا آغاز انگلینڈ نے 1975 میں کیا تھا۔ اس دور میں انگلینڈ ہی واحد ملک تھا جس کے پاس ایک ورلڈ کپ کا انتظام کرنے کے وسائل موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے تین ورلڈ کپس انگلییڈ میں ہوئے۔ 


پہلا کرکٹ ورلڈ کپ 1975 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا۔

دنیا کا چوتھا ورلڈ کپ 1987 میں پہلی بار انگلینڈ کے باہر کسی ملک میں کھیلا گیا اور اس ورلڈ کپ کو پاکستان اور انڈیا نے ہوسٹ کیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس ورلڈ کپ کو آئی سی سی کا نام نہیں دیا گیا بلکہ اس کا نام رلائنس کپ تھا کیونکہ اسے انڈیا کی ماروف کاروباری شخصیت دھیروبھائی امبانی اور انیل امبانی نے سپانسر کیا تھا۔ 


1987 میں دھیروبھائی امبانی اور انیل امبانی نے آسٹریلوی کپتان کو ورلڈ کپ ٹرافی تھمائی۔

انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق رلائنس کمپنی نے 1987 ورلڈ کپ کے رائٹس 4.8 کروڑ انڈین روپے میں خریدے تھے۔ اس کے علاوہ ہر ٹیم کے کپتان کو پروموشن کے لیے 1 لاکھ روپے بھی دیے گئے۔
آغاز میں ورلڈ کپس کو وہی نام دیا جاتا تھا جو اسے سپانسر کرتا تھا اور یہ سلسلہ 1999 تک جاری رہا جب آئی سی سی نے اپنی ورلڈ کپ ٹرافی ڈیزائن کی۔


1999 کے ورلڈ کپ کے لیے آئی سی سی نے ٹرافی ڈیزائن اور یہی ٹرافی آج تک چل رہی ہے۔ 

یہ وہی ٹرافی ہے جو سالہا سال آئی سی سی اپنے ٹورنامنٹس میں استعمال کرتا ہے اور اسے جیتنے والی ٹیمز کو نہیں دیا جاتا۔  
سونے اور چاندی سے بنی آئی سی سی ورلڈ کپ کی یہ ٹرافی 11 کلو وزنی ہے اور اس کی مالی قیمت لگ بھگ 30 ہزار ڈالر بنتی ہے۔ 

 

شیئر: