واٹس ایپ کی ہیکنگ میں ’اضافہ‘، ’شہریوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش‘
واٹس ایپ کی ہیکنگ میں ’اضافہ‘، ’شہریوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش‘
منگل 16 جولائی 2024 7:38
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ایف آئی اے کے مطابق موبائل اور واٹس ایپ ہی نہیں بلکہ اس میں موجود کیمرہ بھی ہیک ہو سکتا ہے۔ (فوٹو: فلکر)
کراچی کے مضافاتی علاقے اتحاد ٹاؤن کے رہائشی محمد عمیر کو دو ہفتے قبل صبح کے وقت ان کے دوست ساجد کمال کا فون آیا۔
ساجد نے ان کی والدہ کی طبعیت دریافت کی اور انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ عمیر نے ساجد کو بتایا کہ ان کی والدہ خیریت سے ہیں اور ان کی طبعیت بھی ٹھیک ہے۔
عمیر نے ساجد کے صبح سویرے کال کرنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے وجہ پوچھی تو ساجد نے بتایا کہ ’رات اسے اس کے واٹس ایپ نمبر سے میسج موصول ہوا تھا جس میں ان کی والدہ کی طبیعت کی ناسازی کے بارے میں بتایا گیا تھا اور 50 ہزار روپے فی الفور بھیجنے کا کہا گیا تھا۔ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات پیسے نہیں بھیج سکا تھا اس لیے صبح ہسپتال کا پتہ پوچھ کر پیسے پہنچانا چاہتا تھا۔‘
عمیر یہ سن کر حیران رہ گیا اور جب یہ کہا کہ ایسا کوئی میسج نہیں کیا تو ساجد نے عمیر کو ان کے نمبر سے بھیجے گئے میسج کا سکرین شارٹ بھیجا جس پر عمیر حیران رہ گیا کیونکہ یہ پیغام ان کے نمبر سے ہی بھیجا گیا تھا اور پروفائل پر فوٹو بھی ان کی لگی ہوئی تھی۔
عمیر نے اس بارے میں متعلقہ اداروں اور اپنے تمام دوستوں کو آگاہ کیا کہ ان کے واٹس ایپ کا کوئی ہیکر غلط استعمال کرتے ہوئے پیسوں کا تقاضا کرہے، لہٰذا کوئی بھی دوست ایسے میسج پر پیسے نہ بھیجیے اور ایسا کوئی مسیج آتا ہے تو وہ انہیں آگاہ کریں۔
پاکستان میں واٹس ایپ کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ اب واٹس ایپ نمبر کے ہیک ہونے کے کچھ واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائمز ونگ آصف اقبال کے مطابق حالیہ دنوں میں پاکستان میں واٹس ایپ ہیک ہونے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صرف موبائل اور واٹس ایپ ہی نہیں بلکہ اس میں موجود کیمرہ بھی ہیک کیا جا سکتا ہے۔‘
آصف اقبال نے بتایا کپ ’واٹس ایپ کو ٹو فیکٹر اتھینٹیکیشن کے ذریعے ہیک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ بیشتر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ صارفین لاعلمی میں ہیکر کو کوڈ دے دیتے ہیں جس سے وہ ان کے آئی ڈی ہیک کرلیتے ہیں اور پھر ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آئی ڈی کے ہیک ہونے کے بعد اسے باآسانی ریکور بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے آگاہی کا ہونا ضروری ہے۔
’اکاؤنٹ کے ہیک ہونے پر سب سے پہلے اس کی رپورٹ کرنی چاہیے، پھر کچھ گھنٹوں کے بعد اپنی سم کے ذریعے اس آئی ڈی کو ریکور بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
آصف اقبال کے مطابق ’ایف آئی اے کی جانب سے شکایت کے اندراج کا طریقہ کار بتایا گیا ہے، کوئی بھی صارف با آسانی ایف آئی اے کے پورٹل پر شکایت درج کروا سکتا ہے۔ اپنی ضروری معلومات فراہم کر کے صارفین بڑی پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔‘
سائبر کرائمز کے تدارک کے لیے کام کرنے والے ماہر نعمان سید کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ کے پلیٹ فارمز پر نئے صارفین کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی سوشل نیٹ ورکنگ ایپلیکشنز استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نت نئے پراجیکٹس لانچ کر رہے ہیں، ایسے میں آگاہی کم ہونے کی وجہ سے کئی صارفین اپنی اہم معلومات ان ایپس کے ذریعے ہیکرز کو فراہم کردیتے ہیں۔ مختلف گروپس میں کئی ایسے وائرسز اور ہیکنگ کے لنک شیئر کیے جا رہے ہیں جو دیکھنے میں حقیقی معلوم ہوتے ہیں جیسے وہ متعلقہ فارم کی جانب سے شیئر کیے گئے ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایپلیکشنز کے نئے صارفین ان حربوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اپنی معلومات نا سمجھی میں ہیکرز کو دے دیتے ہیں، جس کے ذریعے وہ ان کے پروفائل اور پھر اکاؤنٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔‘
نعمان سید کے مطابق ’ان کے جاننے والے کئی لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے ہیں، جس میں صارفین کے لنک کے ذریعے اکاؤنٹس ہیک کیے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی غیر ضروری لنک جو کسی نئے نمبر سے موصول ہوا ہو اسے کلک نہیں کرنا چاہیے، کئی بار ایکسل کی فائلز تک میں ایسے کوڈز بھیجے جاتے ہیں جن کو کھولنے سے آپ کے موبائل کی معلومات سامنے والے فرد تک پہنچ سکتی ہیں۔‘
ایف آئی اے حکام کے مطابق ’اگر ان کیسز کی تعداد کی بات کی جائے تو ان کے پاس لاتعداد ایسی شکایات درج ہوئی ہیں جن کے مطابق شہریوں کے اکاؤنٹ کا غلط استعمال کرکے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کیسز میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے جانے انجانے میں اپنی خفیہ معلومات خود ہی دوسرے فرد کو فراہم کی ہیں، اس کے علاوہ سستے سامان کی خریداری کا جھانسا دیکر بھی کئی لوگوں کو لوٹا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف ایپلیکیشنز نے اپنا اپنا نظام وضع کررکھا ہے۔ اس پراسس کو مکمل کرنے کے بعد ناصرف ہیک ہونے والی آئی ڈی کو واپس حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ تصویر کو استعمال کرنے والے جعلی اکاؤنٹ کو بھی رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔‘
سابق وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سوشل نیٹ ورکنگ ایپس پر آئی ڈی ہیک کرنا یا فیک آئی ڈی بنانے کے واقعات گذشتہ کچھ عرصے سے رپورٹ ہو رہے ہیں، اس بارے میں متعلقہ ادارے بڑی ایپلیکیشنز سے رابطے میں ہیں، اور اس مسئلے کے حل کے لیے کام جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ حالیہ دنوں میں ایسے کیسز کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ صارفین بنا سوچے سمجھے کسی بھی لنک پر کِلک کر دیتے ہیں جس کے باعث ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو جاتا ہے۔‘
سید امین الحق نے کہا کہ ’اس بارے میں وزارت آئی ٹی بھی کام کر رہی ہے اور قومی اسمبلی کی کمیٹی بھی اپنی سفارشات متعلقہ فورم پر بھیج رہی ہے۔‘