Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف آئی اے کو ’فنگر پرنٹس چوری کرنے والے صحافی‘ کی تلاش

ایف آئی اے نے نادرا کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں وضاحت مانگی ہے کہ بتایا جائے کہ ان کا ڈیٹا چوری کیسے ہوا کیا؟ (فوٹو: ایف آئی اے ویب سائیٹ)
اس کہانی کی شروعات اس وقت ہوئی جب فیصل آباد کے ایک شہری نے اپنے نام پر رجسٹرڈ سِموں کی تعداد جاننے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی آن لائن سروس کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی شناخت ظاہر سے منع کیا ہے لہٰذا اس خبر میں ان کا فرضی نام عابد استعمال کیا جا رہا ہے۔
پچھلے سال ستمبر میں پہلی مرتبہ انہوں نے چیک کیا تو ان کے نام پر کئی موبائل سمز چل رہی تھیں جن کو ان کے فنگر پرنٹس سے ایکٹو کیا گیا تھا۔
انہوں نے متعلقہ ٹیلی کام آپریٹرز کی فرنچائز پر جا کر ان اضافی سِمز کو بند کروا دیا۔ لیکن اس سال جنوری میں جب دوبارہ چیک کیا تو پھر ان کے نام سے کئی سِمیں ایکٹیو تھیں، اس بار انہوں نے پی ٹی اے کو ایک تحریری درخواست دے دی۔
اس حوالے سے درج مقدمے کی تفتیش کرنے والے افسر رائے شکیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پی ٹی اے نے اپنے طور پر پہلے اس کمپلینٹ کو چیک کیا تو ان کو اندازہ ہو گیا کہ صورت حل گھمبیر ہے اس لیے ایک باضابطہ درخواست ایف آئی اے کو بھی دے دی گئی۔‘
’چونکہ پی ٹی اے کے پاس تکینکی سہولت موجود ہے اس لیے پتا چل چکا تھا کہ شادباغ کے علاقے کی یوفون کی فرنچائز سے وہ سمز جاری ہوئی ہیں۔ ان کی ٹیم کو بھی ساتھ لے کر ہم نے اس فرنچائز پر ریڈ کیا۔ تو اس کے مالک نے تکنیکی مواد دیکھتے ہوئے فوری بتا دیا کہ یہ سِمیں اس نے ایک جنید نامی ریٹیلر کو فروخت کی تھیں۔‘
نیٹ ورک تک رسائی
ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اس جنید نامی ریٹیلر کو ٹریپ کرنے اور رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے ایک جال بچھایا گیا۔ شکیل بتاتے ہیں کہ ’ہم نے فرنچائز کے مالک کو کہا کہ جنید کو نئی سِمز فروخت کرنے کا لالچ دے کر بلاؤ۔ لیکن جنید نے بتایا کہ وہ اپنے آبائی گاؤں حاصل پور میں ہے۔ تاہم اس نے یہ کہہ دیا کہ کسی ڈیلیوری سروس سے وہ سِمیں اس کے فلیٹ میں پہنچا دی جائیں۔ ہم نے اسی وقت اپنے ہی ایک ٹیم ممبر کو ڈیلیوری بوائے کے روپ میں وہاں بھیجا اور خود اس کا تعاقب کیا۔‘
لاہور میں قینچی کے علاقے میں ایک مارکیٹ میں ڈیلیوری بوائے پہنچا تو اس سے سمیں وصول کرنے کے لیے ایک شخص آیا جسے اسی وقت حراست میں لے لیا گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ’جب اس سے پوچھا کہ جنید کدھر ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اوپر ہی ہے۔ جب ہماری ٹیم فلیٹ کے باہر پہنچی تو اس کی سکیورٹی بہت زیادہ تھی، بڑے بڑے تالے اور لوہے کا ڈبل دروازہ تھا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو دو افراد اپنے لیپ ٹاپس پر مگن تھے۔ جنید کی شناخت ہونے پر جب کمرے کی تلاشی لی تو ہمیں کاغذ پر چھپے ہوئے گیارہ ہزار فنگر پرنٹس ملے۔‘

گرفتار ملزم جنید نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ عمران اقبال نامی ایک صحافی کے لیے کام کرتا ہے۔ (فوٹو: ایف آئی اے ویب سائیٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ہر فنگر پرنٹ دس انگلیوں کا تھا اور اس کے نیچے شناختی کارڈ کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ جبکہ ہم نے لیپ ٹاپ چیک کیے تو ان میں ایک لاکھ دس ہزار فنگر پرنٹس سافٹ کاپی کی شکل میں موجود تھے۔
چاروں افراد کو اسی وقت گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ ان کے قبضے سے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کی سِم ایکٹیو کرنے والی کئی دیوائسز بھی ملیں۔

صحافی تک لیڈ کیسے ملی؟

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سرفراز چوہدری بتاتے ہیں کہ ’فنگر پرنٹس کا جتنا بڑا ریکارڈ ہمیں اس ریڈ سے ملا تھا میرا خیال ہے اس سے پہلے کبھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہمیں بطور ادارہ نہیں کرنا پڑا۔ پہلے تو ہمیں محسوس ہوا کہ شاید یہ ڈیٹا پولیس سے یا کسی اور ایسی جگہ سے چوری کیا گیا ہے جہاں شاید ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے انتظامات کمزور تھے۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب فنگر پرنٹس ڈیٹا کو جانچا گیا تو پتا چلا کہ اس میں آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور پنچاب سمیت تمام صوبوں کے شہریوں کے فنگر پرنٹس موجود ہیں۔ جس سے ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ ڈیٹا نادرا سے چوری کیا گیا ہے۔‘

ایف آئی اے کے افسر کے مطابق یہ ایکٹیو سِمیں فنانشل فراڈ، چوری اور دیگر جرائم میں استعمال ہو رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گرفتار ملزم جنید نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ عمران اقبال نامی ایک صحافی کے لیے کام کرتا ہے۔ رائے شکیل کے مطابق عمران اقبال ایک اخبار نکالتا ہے جبکہ اس کے کئی اور کام بھی ہیں۔
’ہم نے اس کے گھر ریڈ کیا لیکن وہ غائب ہو چکا تھا۔ پھر اس کے ایک دست راست انیس کو گرفتار کیا۔ انیس اور عمران کی واٹس ایپ چیٹ میں فنگر پرنٹس اور موبائل سِمز دونوں ذکر تھا۔ اس لیے کیس اور مضبوط ہو گیا۔‘
صحافی عمران اسی دن سے غائب ہے اور ایف آئی اے انہیں ڈھونڈنے کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ یہ لوگ اتنے زیادہ فنگر پرنٹس کا کیا استعمال کر رہے تھے؟ جب یہ سوال تفتیشی افسر سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’انیس اخباروں میں نوکری کے لیے اشتہار دیتا تھا۔ کئی لوگوں کو صحافت میں نوکری کا لالچ دیتے اور کئی لوگوں کو ٹیلی کام فرنچائزز میں کام کی آفر دیتے۔ اسی حساب سے یہ دونوں جگہوں پر بندے بھرتی کرتے۔ یہ ساری ایکٹیو سِمیں فنانشل فراڈ، چوری اور دیگر جرائم میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے پیچھے اور کون سا گینگ ہے اور یہ ڈیٹا چوری کیسے ہوا ان پہلوؤں پر ابھی تفتیش چل رہی ہے۔‘
ایف آئی اے نے نادرا کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں وضاحت مانگی ہے کہ بتایا جائے کہ ان کا ڈیٹا کیسے چوری ہوا اور کیا اس میں انہی کے دفتر کے لوگ ملوث ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے موجودہ قوانین کے مطابق کوئی بھی موبائل سم اس وقت تک ایکٹیو نہیں ہو سکتی جب تک استعمال کرنے والے کی دس کی دس انگلیوں کے نشان نادرا میں موجود اس کے شناختی ڈیٹا کے ساتھ میچ نہ کر جائیں۔
تمام ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک انکرپٹڈ میکانزم کے تحت صرف ڈیٹا انٹر کرنے کی سہولت ہے جبکہ بیک اینڈ ڈیٹا صرف نادرا کے پاس ہے۔
اس لیے ایف آئی اے کی تفتیش کا رخ نادرا سے ڈیٹا چوری ہونے اور ایک صحافی کی اس ڈیٹا تک رسائی کی جانب ہے۔

 

شیئر: