Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکیورٹی خدشات یا بدانتظامی؟ اپوسٹل اور وزارت خارجہ سے تصدیق کا طریقہ کار پھر تبدیل

دستاویزات کی تصدیق کی سہولت وزارت خارجہ میں فراہم کی گئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
عبدالمجید کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات سے ہے اور وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے سپین میں مقیم ہیں۔ انھوں نے اپنے بیوی بچوں کو سپین بلانے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں کاغذات تیار کرنے میں لگ گئے۔
فیملی کو سپین  بلانے کے لیے باضابطہ درخواست جمع کرانے کے لیے پاکستان سے متعدد سرکاری دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
ان دستاویزات کی وزارت خارجہ اور اپوسٹل سے تصدیق کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی سہولت وزارت خارجہ اسلام آباد میں فراہم کی گئی تھی۔ 
اس سلسلے میں انھوں نے اپنی اہلیہ اور بھائی کو بھجوایا کہ وہ تصدیق کروا لائیں۔ ان کا خیال تھا کہ سپین کے سفارتخانے سے تصدیق کے بجائے اپوسٹل کی سہولت مل جانے سے ان کا کام آسان اور ایک ہی جگہ سے ہو جائے گا لیکن جب وہ گجرات سے سفر کر کے وزارت خارجہ کے قونصلر سیکشن میں پہنچے تو انھیں ایک الگ جہان نظر آیا۔ 
وہاں پارکنگ ایریا میں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین سخت گرمی اور حبس میں قطاریں باندھے کھڑے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں ہی ساتھ پارک میں انتظار کر رہے تھے۔ 
جب معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اپوسٹل کی آن لائن اپائنٹمنٹ جس میں دفتر خارجہ کے حکام اور ایجنٹ مافیا کی ملی بھگت سے کرپشن اور کمیشن کا بازار گرم ہوگیا تھا ختم کرنے سے اب تمام شہری واک ان سہولت سے فائدہ اٹھانے پہنچے ہیں۔
کاغذات کی تصدیق کے لیے عملے کی تعداد ناکافی
لیکن عملے کی تعداد کم اور لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ روزانہ آتے ہیں جن میں سے کئی سو کاغذات کی تصدیق کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ہزاروں مایوس ہو کر اگلے دن قسمت آزمائی کرنے آ جاتے ہیں۔ 
ان مناظر کی کئی ویڈیوز کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں وزارت خارجہ کے باہر پارکنگ میں ہزاروں افراد کو ہاتھوں میں کاغذات اور فائلیں اٹھائے اور احتجاج کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

عملے کی تعداد کم ہونے سے کئی سو افراد کو کاغذات کی تصدیق کرائے بغیر واپس جانا پڑتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے وزارت خارجہ نے معمول کی تصدیق اور اپوسٹل تصدیق کے لیے واک ان سہولت ختم کرتے ہوئے اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں کوریئر کمپنیوں کو ان کاغذات کی وصولی کا اختیار دے دیا ہے۔ یہ کمپنیاں کاغذات وصول کر کے وزارت خارجہ کو پہنچائیں گی جو تصدیق کے بعد انھی کمپنیوں کے ذریعے کاغذات واپس شہریوں کو پہنچانے کی پابند ہوں گی۔
کوریئر کمپنیوں کے ذریعے کاغذات کی وصولی
اس سلسلے میں ٹی سی ایس، جیری اور ایم اینڈ پی، ای سی ایس اور لیپرڑ کوریئرز کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر اسلام آباد اور کراچی میں پانچ پانچ جبکہ لاہور میں سات مقامات پر کاغذات وصول کیے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف شہریوں کو ایک کے بجائے سترہ مقامات پر کاغذات جمع کرانے کی سہولت ملے گی بلکہ مستقبل قریب میں یہ کمپنیاں دیگر شہروں بالخصوص ضلع اور تحصیل کی سطح پر بھی کاغذات وصول کرنے کی سہولت کا انتظام کریں گی۔ 
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اپوسٹل تصدیق کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل جب پاکستان میں اپوسٹل خدمات کی فراہمی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار تھی شروع کیا گیا تو آغاز کے ساتھ ہی ایجنٹ مافیا بھی سرگرم ہوگیا۔ جونہی اپوسٹل کے لیے پورٹل کھلتا ہے تو ایجنٹ مافیا اگلے کئی کئی ہفتوں کے لیے اپوائنٹمنٹ بک کر لیتا ہے اور بعد ازاں جب لوگوں کو اپوائنٹمنٹ نہیں ملتی تو انہیں اپوائنٹمنٹ بیچی جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں سپین میں مقیم عبدالرزاق نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ انھوں نے جب اپوائنٹمنٹ لینے کی کوشش کی تو نہیں ملی تھی اور انہیں ایک ایجنٹ سے رابطہ کروایا گیا جس کے بعد انھوں نے ایک ہفتے بعد کی اپوائنٹمنٹ کے لیے 35 ہزار روپے لیے۔
اس طرح اٹلی میں مقیم ذیشان پراچہ نے بتایا کہ انھیں اپنی اہلیہ کے تعلیمی سرٹیفکیٹ کے لیے ایک ہفتے میں اپوسٹل سرٹیفیکیٹ درکار تھا لیکن اپوائنٹمنٹ نہیں مل رہی تھی۔ بعد ازاں ایجنٹ کو 25 ہزار روپے دے کر اپوائنٹمنٹ لی اور اپوسٹل سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔
جونہی اس حوالے سے خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو وزارت خارجہ نے آن لائن اپوائنٹمنٹ کا طریقہ کار ختم کرتے ہوئے واک ان کی سہولت فراہم کر دی جو شہریوں کے لیے نعمت کے بجائے زحمت کا باعث بنی۔

کوریئر کمپنیوں کے ذریعے کاغذات دفتر خارجہ کو بھجوائے جائیں گے۔ فوٹو: شٹر سٹاک

بدانتظامی یا سکیورٹی خدشات
کیا یہ کسی بدانتظامی کا نتیجہ تھا یا دفتر خارجہ صورتحال کا ادراک ہی نہیں کر سکی۔ اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ اپوسٹل 105 سے زائد ممالک کے لیے کاغذات کی تصدیق کا ایک ذریعہ ہے۔
اس سے قبل شہری ان ممالک کے سفارت خانوں میں خود جاتے تھے یا ان کی مقرر کردہ کمپنیوں کے پاس جاتے تھے لیکن جونہی پاکستان میں اپوسٹل سروس کا آغاز کیا گیا اور بیشتر ممالک نے اپوسٹل تصدیق کے بغیر کاغذات لینا بند کر دیے تو ہنگامی بنیادوں پر وزارتِ خارجہ کو اس کا آغاز کرنا پڑا۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ وہ تمام افراد جو پہلے مختلف سفارت خانوں میں جاتے تھے وہ سب اچانک ایک ساتھ وزارت خارجہ آنے لگے تو رش توقعات سے کہیں زیادہ ہونے لگا۔
اس رش سے نمٹنئے کے لیے اپوائنٹمنٹ کا تجربہ کیا گیا لیکن اس میں نہ صرف شکایات موصول ہونے لگیں بلکہ کام کی رفتار کم ہونے سے لوگوں کو طویل انتظار بھی کرنا پڑ رہا تھا۔ اس لیے کوریئر کمپنیوں کے ساتھ ارینجمنٹ کرنا پڑا۔
حکام کے مطابق نئے ارینجمنٹ کے تحت وزارت خارجہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے لائزان دفاتر سے نامزد کوریئر کمپنیوں کے ذریعے ہی دستاویزات وصول کریں گے البتہ پاور آف اٹارنی، عدالتی دستاویزات، حلف نامہ جیسے قانونی دستاویزات کی تصدیق کے لیے وزارت خارجہ ہی آنا پڑے گا۔ 
اپوسٹل تصدیق کی فیسوں میں اضافہ 
وزارت خارجہ نے آن لائن اپوائنٹمنٹ اور واک ان کی سہولت ختم کرنے کے ساتھ ہی اپوسٹل تصدیق کے لیے فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل ذاتی، تعلیمی اور تجربے کے سرٹیفکیٹس کی تصدیق کی فیس پانچ سو روپے فی کس تھی۔ لیگل دستاویزات کی تصدیق کے لیے سات سو روپے جبکہ کمرشل دستاویزات کی تصدیق کے لیے تین ہزار روپے فیس مقرر تھی۔
اب اس میں اضافہ کرتے ہوئے ذاتی اور تعلیمی اسناد کی فی دستاویز تصدیق 3000 روپے، قانونی دستاویزات کی فیس 4500 روپے فی دستاویز اور کمرشل دستاویزات کی فی دستاویز 12000 روپے مقرر کی گئی ہے۔ 

ویزا کے لیے اکثر ممالک کو اسناد کی تصدیق درکار ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اپوسٹل کیا ہے؟ 
عام طور پر ممالک ایک دوسرے کی سرکاری دستاویزات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے اس لیے کسی بھی قسم کے ویزہ اور دیگر امور کے لیے درکار دستاویزات کی تصدیق ضروری ہوتی ہے۔ یہ تصدیق ایک خاص ترتیب سے ہوتی ہے تاکہ کوئی بھی جعلی دستاویز کی تصدیق نہ کرا سکے۔ 
اس سے جعل سازوں کی تو حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اس عمل میں وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی طالب علم نے اپنی دو سندوں اور دو ڈگریوں کی تصدیق کرانی ہو تو اسے متعلقہ بورڈ، آئی بی سی سی اور ایچ ای سی سے تصدیقی عمل کے لیے کم از کم 16 سے 20 ہزار روپے بطور فیس ادا کرنے ہوں گے۔ سفری اخراجات اور سفارت خانے سے تصدیق کی صورت میں فیس اس کے علاوہ ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔  
اس سارے عمل کو آسان بنانے کے لیے 1961 میں ’ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء‘ کے دوران ایک کنونشن پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو آسان بنانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اپوسٹل کے تحت رکن ملک اپنے ملک کے اندر ایک اتھارٹی مقرر کر دیتا ہے جو تمام سرکاری دستاویزات کی تصدیق کر دیتی ہے اور یہ تصدیق تمام رکن ممالک میں قابل قبول ہوتی ہے۔  
عام طور پر جب بھی کسی اوورسیز پاکستانی کو اپنے ملک سے کسی قسم کی سرکاری دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ متعلقہ دستاویزات کے حصول کے بعد مقامی دفاتر، دفتر خارجہ اور متعلقہ ملک کے سفارت خانے سے تصدیق  کرواتا ہے۔ بعض اوقات تمام دستاویزات کو ملک کی اپنی زبان میں ترجمہ بھی کرانا پڑتا ہے جس میں غلطیوں کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اپوسٹل سے الحاق کے بعد ترجمہ کی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ اپوسٹل کاغذات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ اس میں تصدیق کی گئی ہو گی کہ متعلقہ دستاویز کس دفتر سے کسی افسر نے کس حیثیت میں جاری کی اور اس پر کس عہدے کی مہر ثبت ہے۔  
دفتر خارجہ اور دیگر اداروں سے تصدیق کرائی گئی دستاویزات کی میعاد چھ ماہ تک ہوتی ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر ان دستاویزات کو استعمال میں نہ لایا جائے تو نئے سرے سے تصدیق کرانا پڑتی ہے۔
جبکہ اپوسٹل کنونشن کے تحت متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹ کی میعاد ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ تاہم اگر کسی دستاویز کے اوپر ختم ہونے کی معیاد درج ہو تو اس کو نئے سرے سے جاری کروا کر اپوسٹل تصدیق کروانا ہوگی۔

شیئر: