Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فچ رپورٹ اندرونی معاملات میں مداخلت،‘ کیا شہباز حکومت کے لیے خطرہ بھی ہے؟

حکومتی ترجمان رانا احسان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے اس لیے اس کے مندرجات پر کوئی ردعمل نہیں دینا چاہتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فچ بزنس مانیٹر انٹرنیشنل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال معیشت کو ڈی ریل کر سکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی موجودہ حکومت 18 ماہ یا اس سے کچھ عرصہ زائد قائم رہ سکتی ہے جس کے بعد ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ آنے کا امکان ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی فچ بزنس مانیٹر انٹرنیشنل کی پاکستان کنٹری رسک رپورٹ میں جہاں پاکستان کے معاشی اشاریوں کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے وہیں پہلی بار ایسی کسی رپورٹ میں حکومت کے مستقبل اور جیل میں قید عمران خان کے بارے میں بھی پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔
تاہم پاکستان کے معاشی امور کے لیے حکومتی ترجمان رانا احسان افضل نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ فچ کی نہیں بلکہ اس سے الحاق شدہ ایک ادارے بی ایم آئی کی ہے۔ اس لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

 فچ رپورٹ شہباز حکومت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟

اپنی رپورٹ میں فچ انٹرنیشنل نے لکھا ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی کو نازک صورتحال کا سامنا ہے اور شہری علاقوں میں احتجاج معاشی سرگرمیوں کو متاثر جبکہ سیاسی صورت حال معیشت کو ڈی ریل کر سکتی ہے۔
کئی کامیاب قانونی اپیلوں کے باوجود بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) مستقبل قریب میں قید میں رہیں گے۔ فچ بزنس مانیٹر انٹرنیشنل کے مطابق ممکنہ متبادل کے طور پر ٹیکنو کریٹک انتظامیہ اقتدار میں آئے گی۔
معاشی اشاریوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سال کے اختتام تک ڈالر 290 روپے جبکہ 2025 میں 310 روپے تک جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجٹ اہداف کا حصول مشکل قرار دیا گیا ہے البتہ مالی خسارہ 7.4 فیصد سے کم ہو کر 6.7 فیصد پر آنے کا امکان ہے۔
پاکستان کی وزارت خزانہ میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے والے سابق سیکرٹری خزانہ اور ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ فچ مالیاتی امور پر رپورٹس اور تجزیے دینے والی ایک کمپنی ہے۔
’ان کی رپورٹس اس لیے اہم ہوتی ہیں کہ سرمایہ کار کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ایسے اداروں کی رپورٹس پر انحصار کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں ہی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں کوئی ملک اپنے بانڈز جاری کرتا ہے تو بھی ان بانڈز کی خریداری سے پہلے عالمی ادارے اور کمپنیاں ملکی معیشت کے بارے میں فچ، موڈیز اور اس طرح کے دیگر اداروں کی رپورٹس کو سامنے رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عموماً ایسی کمپنیاں معاشی صورت حال کو زیربحث لاتی ہیں لیکن معیشت چونکہ سیاست اور سیاسی حالات سے جڑی ہوئی ہے اس لیے حالیہ رپورٹ میں سیاسی حالات اور اس سے جڑی پیش گوئیاں بھی کی گئی ہیں۔
اپنی ریسرچ میں انھوں نے سیاسی رسک کا جائزہ لے کر اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ اب حکومت یا ادارے ان کے اس تجزیہ سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ 18 ماہ کا وقت ایک مفروضہ ہے اس لیے ان مفروضوں کی بنیاد پر کہنا کہ یہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے شاید درست نہ ہوگا۔

فچ رپورٹ میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجٹ اہداف کا حصول مشکل قرار دیا گیا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان نجیب نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ عالمی سطح پر اداروں اور شراکت داروں کے ساتھ پاکستان کی تمام یقین دہانیاں کسی حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کے طور پر ہوتی ہیں۔ ’ریاست نے ہمیشہ ہی ان تمام یقین دہانیوں کو پورا کیا ہے۔ امید یہی ہے اس وقت بھی جو اصلاحات درکار ہیں ان پر بڑی حد تک اتفاق رائے بھی موجود ہے۔ ان میں تاخیر یا تھوڑا آگے پیچھے ہو جانا معاشی صلاحیت اور سیاسی استحکام پر ہے۔ لیکن پاکستان کے سیاسی ڈھانچے پر ایک بین الاقوامی ایجنسی کا تبصرہ کرنا اور پیش گوئی کرنا معیوب ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس رپورٹ سے پہلے فچ کے جن لوگوں نے وزارت خزانہ سے ان معاملات پر بات کی ہوگی انھیں اس کو اسی وقت واضح کر دینا چاہیے تھا یا اس رپورٹ کے جاری ہونے سے متعلق اس ایجنسی سے رابطے میں رہنا چاہیے تھا تاکہ ایسے کسی تبصرے سے روکا جا سکتا۔

فچ اپنی رپورٹ میں کن عناصر کو شامل کرتی ہے؟

 ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ میں نے جتنا عرصہ فچ یا اس طرح کے دیگر اداروں کے ساتھ کام کیا ہے یا ان کو ڈیل کیا ہے اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ فچ کسی بھی ملک کی معیشت کے بارے میں جن عناصر کو سامنے رکھتا ہے اس میں وہ اس ملک کے اپنے معاشی اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی رپورٹس کو بھی دیکھتے ہیں اور بڑا ڈیٹا وہیں سے لے کر استعمال کرتے ہیں۔
’اس کے علاوہ عالمی بینک کی رپورٹس کو بھی بروئے کار لاتے ہیں جبکہ اکنامک انٹیلی جینس یونٹ کی مختلف ملکوں اور خطوں کے بارے میں رپورٹس پر بھی ان کا انحصار ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسے ادارے متعلقہ ملک کے دورے بھی کرتے ہیں اور نہ صرف سرکاری حکام، وزارت خزانہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں بلکہ معیشت اور سیاست سے جڑے اہم کرداروں سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ’یہی وجہ ہے کہ حالیہ رپورٹ میں معیشت کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات کے بارے میں بھی رائے دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق ایسی ایجنسیوں کی رپورٹس عموماً حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہیں۔

ٹیکنوکریٹ حکومت، کیا ممکنات میں سے ہے؟

 فچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شہباز حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں نئے انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ ٹیکنوکریٹس پر مبنی نئی حکومت تشکیل پائے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی کامیاب قانونی اپیلوں کے باوجود عمران خان مستقبل قریب میں قید میں رہیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بظاہر پاکستان کے آئین میں ایسی کسی حکومت کی گنجائش موجود نہیں ہے لیکن ماضی قریب میں نگراں حکومت کو بھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی ایک شکل ہی کہا گیا ہے۔ جس نے ماضی کے برعکس ایک طویل عرصے تک کام کیا لیکن معیشت کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھا سکی تھی۔
اس حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ فچ کی جانب سے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات کرنا کلی طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
’ایک ذمہ دار ریٹنگ ایجنسی کو جمہوری سیاسی حالات کے بارے میں پیش گوئی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اول تو اس حوالے سے پیش گوئی کی ہی نہیں جا سکتی دوسرا اس سے ملکی معیشت پر عالمی اداروں اور ملکوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو عالمی یقین دہانیوں کو بہرحال پورا کیا جانا ہے اور کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ یہ تجزیہ ایک رائے ہے اور ایک مفروضہ ہے اس لیے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ توجہ معاشی استحکام کی طرف دینی چاہیے۔ ’معیشت کی بہتری کے لیے ہمیشہ زور دیا جاتا ہے کہ سازگار ماحول پیدا کیا جائے تو اس لیے حکومت کوئی بھی ہو جب تک وہ معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کرے گی تب تک معیشت آگے نہیں بڑھ سکے گی۔‘
دوسری جانب حکومت کے معاشی امور پر ترجمان رانا احسان افضل نے اس رپورٹ کو پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ کی نہیں ہے بلکہ بی ایم آئی کی فچ سلوشنز کمپنی کی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں  ہے۔
’یہ ایک پروپیگنڈہ ہے اس لیے اس کے مندرجات پر کوئی ردعمل نہیں دینا چاہتے۔‘
انھوں نے کہا کہ عموماً پیشہ ور ریٹنگ ایجنسیاں کسی بھی ملک کے سیاسی حالات یا سیاست سے متعلق تبصرہ نہیں کرتیں۔ ’اس لیے بی ایم آئی کی رپورٹ پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ یہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی تعریف پر ہی پورا نہیں اترتی۔‘

شیئر: