Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سیزن شروع ہونے کی خوشی نہیں‘، ماہی گیر لانچیں بیچنے پر مجبور کیوں؟

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ بیشتر لانچیں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئی ہیں (تصویر بشکریہ:ابراہیم حیدری)
کراچی نے اپنے دامن میں کئی چھوٹے بڑے جزیرے بھی سمو رکھے ہیں جہاں رہنے والوں کی اکثریت ماہی گیر ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل آباد ان جزیروں میں رہنے والے اپنا گزر بسر آبی حیات کے شکار سے کرتے ہیں۔
ہر سال جون اور جولائی کے مہینے ان ماہی گیروں کے لیے مشکل رہتے ہیں کیونکہ یہ مہینے سمندری حیات کا بریڈنگ سیزن ہوتا ہے اور ان مہینوں میں کُھلے سمندر میں شکار پر پابندی ہوتی ہے۔
اگست کی آمد کے ساتھ ہی ان کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھتے ہیں اور 31 جولائی اور یکم اگست کی درمیانی رات ان جزیروں کے لیے چاند رات سے کم نہیں ہوتی۔
سینکڑوں لانچیں شکار پر نکلنے کے لیے تیار ہوتی ہیں اور رات 12 بجتے ہیں مختلف راستوں سے گہرے پانی میں شکار کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں۔
رواں سال میں جون اور جولائی کا آف سیزن ختم ہونے کو ہے، اگست کی آمد میں کچھ ہی دن باقی ہیں لیکن ان جزیروں کے بیشتر رہائشی حکومت کی طرف مایوسی سے دیکھ رہے ہیں۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ کُھلے سمندر میں شکار پر جانے والی بیشتر لانچیں اب مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئی ہیں اور کباڑ میں بِِک رہی ہیں۔ درجنوں لانچیں یا تو جیٹی پر کھڑی ہیں یا مختلف جزیروں کے کناروں پر بندھی ہیں۔

’مالی سال 2023-24 ماہی گیری کے لیے اچھا سال ثابت نہیں ہوا‘

پاکستان بیورو آف کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق سال 2023-24 میں پاکستان کی سمندری غذا کی برآمد 410 ملین امریکی ڈالر ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں تقریبا 17 فیصد کم ہے۔
سال 2022-23 میں سمندری خوراک کی برآمد 496 ملین امریکی ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی۔
کیماڑی سے کچھ فاصلے پر واقع بابا آئی لیڈ کی رہائشی سکینہ بی بی گھریلو خاتون ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ ماہی گیری میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔
سکینہ بی بی کے شوہر ایک چھوٹی لانچ پر شکار کرتے ہیں اور مچھلی، جھینگے اور کیکڑے کے شکار کے بعد صفائی کرکے اسے کیماڑی کے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’رواں سال اپریل سے کام کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اب ماہی گیری کے بجائے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کر رہی ہوں۔‘
سکینہ بی بی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ڈیزل اور برف کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے ماہی گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شکار پر آنے والی لاگت کے حساب سے مارکیٹ میں مال فروخت نہیں ہو رہا۔ اس لیے سیزن کے بند ہونے سے پہلے ہی لانچ کو جیٹی پر کھڑا کردیا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سوچا تھا کچھ پیسے جمع ہوجائیں گے تو لانچ کی مرمت کرکے اسے سیزن کے آغاز پر چلائیں گے لیکن مہنگائی اور محدود آمدنی میں دو وقت کی روٹی کا حصول ہی مشکل ہے تو ایسے میں لانچ کی مرمت کیسے کرتے؟‘
سکینہ بی بی کے بقول ’اب حال یہ ہے کہ لانچ جیٹی پر کھڑی ہے اور جال بھی قابلِ استعمال نہیں رہا تو سیزن شروع ہونے کی خوشی ہے نہ بہتری کی کوئی اُمید۔‘

حسن علی نے بتایا کہ ’70 سے 80 لاکھ میں بننے والی لانچ 35 سے 40 لاکھ میں فروخت کی جا رہی ہے۔‘ (تصویر بشکریہ: ساجد نور بلوچ)

کراچی بابا آئی لینڈ پر رہنے والے حسن علی بھٹی پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں اور اپنے علاقے میں ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’شکار پر جانے والوں کا خرچہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ لانچیں نکالنے سے پہلے ماہی گیر سوچ رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک ماہی گیروں کو سہولتیں دے رہے ہیں اور وہ چین سمیت دیگر مارکیٹوں میں پاکستان کے مقابلے میں سستا مال فروخت کررہے ہیں۔‘
حسن علی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’لاکھوں روپے کا خرچہ کرکے مہینہ بھر محنت کرنے والے ماہی گیر جب لوٹ رہے ہیں تو مچھلی، جھینگے کا مارکیٹ میں ایسا ریٹ مل رہا ہے جس سے منافع تو ایک طرف لانچ کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رواں سیزن میں دو درجن سے زائد لانچیں کباڑ میں بیچ دی گئی ہیں۔ بیشتر لانچیں کناروں پر کھڑی سڑ رہی ہیں۔ 70 سے 80 لاکھ میں بننے والی لانچ 35 سے 40 لاکھ میں فروخت کی جا رہی ہے۔‘
حسن علی نے مزید کہا کہ ماہی گیر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ریلیف فراہم کیا جائے، اگر اس وقت ماہی گیروں کا ہاتھ نہیں تھاما گیا تو آنے والے دنوں میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر سعید فرید کے مطابق 2023-2024 کے دوران سمندری غذا کی برآمدات میں بڑی کمی کی وجہ جنوب مشرقی علاقوں میں جمود کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
’ایشیا میں چین اور تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک جو مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کے لیے پاکستان کے لیے بڑی منڈی ہیں، انہیں دیگر ممالک سے اچھے دام میں سمندری حیات مل رہی ہیں۔ اس لیے پاکستان کی طرف خریداری کا رجحان کم دیکھا جا رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ کئی سالوں سے پاکستان کو یورپی ممالک میں سمندری حیات کی برآمدات پر پابندی کا سامنا ہے۔ صفائی ستھرائی اور عالمی معیار کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار یورپی ممالک کے وفود کے دوروں کے باوجود پاکستان سے پابندی نہیں ہٹ سکی ہے۔

شیئر: