حمزہ شہباز کی نئی ذمہ داری، کیا پارٹی میں دوبارہ جگہ بنا پائیں گے؟
حمزہ شہباز کی نئی ذمہ داری، کیا پارٹی میں دوبارہ جگہ بنا پائیں گے؟
جمعرات 25 جولائی 2024 5:42
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ترجمان کے مطابق ’حمزہ شہباز کو مسلم لیگ ن کے اندر ایک بڑا عہدہ بھی ملنے کی توقع ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز کو پبلک فیسیلیٹیشن یونٹ پنجاب کا سربراہ بنانے کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر جاری ہونے والے نوٹی فیکیشن میں کہا گیا ہے کہ پبلک فیسیلیٹیشن یونٹ کے دو دفاتر ہوں گے، ایک پی ایم آفس جبکہ دوسرا لاہور سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ہو گا۔
اس پبلک فیسیلیٹیشن یونٹ کے پانچ ارکان ہوں گے جبکہ اس کے سربراہ کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہو گا۔ اس حوالے سے حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورائیہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے موقف بیان کیا۔
’یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ حمزہ شہباز کو پبلک فیسلیٹیشن یونٹ کا سربراہ بنایا گیا ہے، وہ اس سے پہلے بھی یہ کام کر چکے ہیں اور انہیں پہلی بار میاں نواز شریف نے اس عہدے پر لگایا تھا۔‘
عمران گورائیہ نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ عہدہ بنیادی طور عوام اور وزیراعظم کے دفتر کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے ہوتا ہے، خاص طور پر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو درپیش معاملات کے فوری حل کی ضرورت ہوتی ہے تو اس میں یہ عہدہ ایک پُل کا کام کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’پبلک فیسلیٹیشن یونٹ کے سربراہ کے ساتھ ایک ڈپٹی سیکریٹری بھی موجود ہوتا ہے اور اس دفتر سے احکامات سرکاری دفاتر میں عمل درآمد کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔‘
’عام طور پر ارکان اسمبلی کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے حلقے کے کاموں میں تاخیر ہو رہی ہے اور چونکہ وزیراعظم روزانہ ذاتی طور پر دستیاب بھی نہیں ہوتے تو اس عہدے پر حمزہ شہباز کا پہلے بھی تجربہ ہے تو اسی لیے میرے خیال میں اُنہیں دوبارہ یہ عہدہ دیا گیا ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کے پنجاب کی وزیراعلٰی بننے کے بعد سے مسلم لیگ ن کی سیاست کے اُفق سے حمزہ شہباز مکمل طور پر غائب رہے ہیں۔
انہوں نے چند لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کی وفات پر اُن کے اہل خانہ سے تعزیت کے علاوہ اور کوئی عملی کام نہیں کیا۔ جن سرکاری تقریبات میں وہ نظر آئے بھی تو اُن کا چہرہ سپاٹ اور تاثرات سے عاری رہا۔
وہ آخری مرتبہ ٹی وی سکرینوں کی زینت تب بنے جب نواز شریف کو پارٹی کا دوبارہ صدر منتخب کیا گیا۔ اس تقریب میں حمزہ شہباز وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے ساتھ ایک ہی صوفے پر براجمان تھے، تاہم وہ زیادہ دیر خاموش ہی نظر آئے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی وجہ سے حمزہ شہباز کا سیاسی راستہ رُکنا ایک لازمی امر تھا جبکہ دوسری طرف حالیہ اقدامات سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔
’حمزہ شہباز کی راہیں اس لیے مسدُود ہو گئی تھیں، تاہم اب ایک مرتبہ پھر انہیں ایسا عہدہ ملا ہے جس سے بظاہر وہ پارٹی کے ارکان اسمبلی کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور پارٹی کے اندر اپنی پوزیشن بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اپنی پارٹی کو سنبھالنے کی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ نواز شریف عملی اقدامات سے یہ تاثر دے چکے ہیں کہ آگے جا کر پارٹی کی باگ دوڑ مریم نواز ہی سنبھالیں گی۔‘
’ایسے میں میرا خیال ہے کہ حمزہ شہباز کا بیک فُٹ پر جانا ایک قدرتی عمل تھا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنے آپ کو تایا کا جانشین سمجھتے تھے، تاہم گذشتہ دہائی میں سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں حمزہ شہباز کو کسی ایسی سرگرمی میں لانا کہ وہ پارٹی کے لیے مفید ثابت ہوں یہ ایک بہتر کوشش ہے۔‘
سیاسی امور پر لکھنے والے وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کو اب تک یہ سبق حاصل ہو جانا چاہیے کہ اُن کا پرانا طرز ِسیاست بُری طرح پِٹ چکا ہے۔‘
’نئے حالات کے مطابق اب نئے طریقوں کو ڈھونڈنا اور موروثیت سے باہر سوچنے سے ہی آنے والے وقت میں بہتری کے کچھ آثار ہو سکتے ہیں، تاہم میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مسلم لیگ ن نے کچھ نہیں سیکھا۔‘
وجاہت مسعود کے خیال میں مسلم لیگ ن اب بھی گھِسے پِٹے طریقے سے چل رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پارٹی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے ارکان اسمبلی کے کام کرنے سے زیادہ کسی بہتر بیانیے کی ضرورت ہے۔
تاہم عمران گورائیہ کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز پارٹی میں پوری طرح متحرک ہیں اور سیاسی طور پر بھی انہیں مسلم لیگ ن کے اندر ایک بڑا عہدہ بھی ملنے کی توقع ہے تو ان کا کردار اور بھی زیادہ موثر ہو جائے گا۔