Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’منی امرتسر اُجڑ گیا‘، پشاور کے سکھ تاجروں کی پنجاب ہجرت

سرحد چیمپر کے صدر کا کہنا ہے کہ سکھ تاجروں کے لیے پنجاب میں کاروبار کے لیے ماحول سازگار ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
صوبہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مخدوش حالات کی وجہ سے سکھ برادری کو غیرمعمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پشاور میں حالیہ چند برسوں کے دوران اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ٹارگٹ کلنگ کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں اور گذشتہ سات برسوں کے دوران 18 سکھ شہریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات میں سے زیادہ تر میں سکھ تاجروں کو نشانہ بنایا گیا۔

سکھ تاجر پنجاب کیوں ہجرت کررہے ہیں؟

 پشاور میں سکھوں کی معروف مذہبی اور سماجی شخصیت بابا گورپال سنگھ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’پشاور کے اندرون شہر کا محلہ جوگن شاہ، جو چھوٹا امرتسر کے نام سے مشہور تھا، میں 18 ہزار سے زیادہ سکھ آباد تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ تعداد کم ہو کر چھ ہزار رہ گئی ہے۔‘
اس محلے میں بیشتر گھر سکھوں کی ملکیت تھے۔ وہ مگر بدامنی کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘
بابا گورپال سنگھ نے کہا کہ ’پشاور میں کاسمیٹکس اور کپڑوں کے بڑے تاجر سکھ ہوا کرتے تھے مگر اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ وصولی کی کالوں سے تنگ آکر یہ بڑے تاجر پنجاب چلے گئے جب کہ کچھ گلگت بلتستان منتقل ہوگئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا، ’پشاور میں سکھ قدیم حکمت کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں مگر ٹارگٹ کلنگ میں حکما کو قتل کرنے کے واقعات کے بعد وہ بھی یہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’میرے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ سال 2019 میں شبقدر میں قاتلانہ حملہ میں میرا بھائی مارا گیا جبکہ گذشتہ سال ارمڑ میں میرے کزن پر ان کی ہی دکان کے سامنے قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم بھی اس ملک کے باسی ہیں۔ پاکستان میں امن اور سلامتی ہمیں بھی اتنی ہی عزیز ہے جتنی باقی شہریوں کو ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں سے ہجرت کرنے والے سکھ خاندانوں نے خوشی سے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے ایسا کیا۔‘
پشاور کے ایک اور سکھ تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’سکھ برادری کے زیادہ تر کاروباری افراد نے اپنا کاروبار پنجاب منتقل کر لیا ہے جس کی بڑی وجہ بدامنی اور خوف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ امن و امان کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے ضلع خیبر سے پشاور منتقل ہوئے تھے مگر اب تو یہاں بھی نامعلوم نمبروں سے بھتے کی کال موصول ہورہی ہیں۔

سکھ تاجر نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہی حالات رہے تو سکھ شہری کے پی کو خیرباد کہہ دیں گے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

’کسی کو بتا بھی نہیں سکتے کیوں کہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں ہمیں کوئی نشانہ نہ بنا ڈالے۔‘
سکھ تاجر نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہی حالات رہے تو سکھ شہری اس صوبے کو خیرباد کہہ دیں گے۔

سرحد چیمبر آف کامرس کے خدشات

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فواد اسحاق کا کہنا ہے کہ پشاور سمیت پورے صوبے کے حالات خراب ہیں اور کوئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
’سکھ تاجروں کے لیے سردست خوف کی فضا قائم ہے جبکہ پنجاب میں کاروبار کے لیے ماحول سازگار ہے اسی لیے سکھ تاجر خیبرپختونخوا سے اپنا پیسہ منتقل کر رہے ہیں۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’سکھ تاجر پنسار، گارمنٹس ، کاسمیٹکس اور الیکٹرانکس کا کاروبار کرتے تھے اور وہ افغانستان کے ساتھ تجارت کرتے تھے مگر اب امن و امان کے مخدوش حالات اور بارڈر پر بندشوں کے باعث کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے جس کے باعث سکھ تاجر یہاں سے منتقل ہو رہے ہیں مگر حکومت اس بارے میں سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔‘

پولیس کے اقدامات 

ایس پی سٹی ظفر احمد خان نے کہا کہ ’محلہ جوگن شاہ میں سکھوں کی عبادت گاہوں کے باہر ہمہ وقت 8 پولیس اہلکار تعینات رہتے ہیں جو مختلف شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں، جن بازاروں میں سکھ دکاندار کام کر رہے ہیں وہاں ابابیل سکواڈ مستقل طور پر گشت پر رہتا ہے اور پرہجوم جگہوں پر  ڈیوٹی بھی دیتے ہیں۔‘

16 ستمبر 2023 کو پشاور میں سکھ شہریوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو: ایکسپریس)

ایس پی سٹی کے مطابق، 'پشاور کے کچھ حساس علاقوں میں سکھ تاجروں کے لیے پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ گذشتہ سال ارمڑ کے بازار میں سکھ دکاندار کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار فائرنگ کے واقعہ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ پولیس کی اولین ترجیح سکھ برادری کا تحفظ ہے اور اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنا ممکن ہی نہیں۔‘
خیال رہے سال 16 ستمبر 2023 کو پشاور میں سکھ شہریوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔

شیئر: