Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بُزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا‘‘

ہند کے مزاحیہ شاعرداغ مفارقت دے گئے ،’’مزاح کا قطب مینار‘‘ منہدم ہوگیا

* * *کے این واصف۔ریاض* * *

اہل اردو ابھی دکنی لہجے میں شعر کہنے والے معروف شاعر خواہ مخواہ حیدرآبادی کی رحلت پر افسردہ تھے کہ کوئی 20 دن بعد ہی دکنی لہجے کے ایک اور شاعر کے گزر جانے کی اطلاع آئی ۔معروف شاعر حمایت اللہ بھی داغ مفارقت دے گئے۔ یہ سانحہ اور بھی بڑا تھا کیونکہ حمایت اللہ نہ صرف دکنی لہجے کے معروف اور سینیئر شاعر تھے بلکہ اداکار، صدا کار ، بے لوث سماجی کارکن او رفنون لطیفہ ، سماجی اور ادبی انجمنوں کے روح رواں بھی تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک محمد حمایت اللہ 25 دسمبر 1932 ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔

دم آخر تک انہوں نے مختلف حیثیتوں میں ثقافتی شعبے کی، سماج اور ادب کی خدمت انجام دی۔ کہتے ہیں آزادی ملک کی تقسیم اور ریاست حیدرآباد دکن کے انڈین یونین میں ضم ہونے کے بعد تیزی سے سماج کا منظر بدلا۔ حیدرآباد کی قدیم تہذیب کے زوال کا آغاز ہوتا نظر آنے لگا۔ ہر طرف نااُمیدی کے بادل چھانے لگے تھے۔ ایسے وقت میں حیدرآباد کے افق پر چند حوصلہ مند اور زندہ دل نوجوانوں کا ایک گروپ اٹھا جس نے حیدرآباد کی روایتی تہذیب کی بقاء کی طرف توجہ دی۔ اس سلسلے میں مختلف الجہت کوششیں کی گئیںجن میں گائیں آرٹس اکیڈمی اور بعد میں زندہ دلان حیدرآباد جیسے شہرۂ آفاق اداروں کاقیام شامل تھا۔ ان تنظیموں کے بانی رکن کی حیثیت سے محمد حمایت اللہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کے والد غلام مرتضیٰ، نظام دکن کی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائض تھے۔

یہ ان کا آبائی پیشہ تھا لیکن حمایت اللہ نے اپنے آبائی پیشے سپہ گری کو نہیں اپنایا۔ تعمیراتی شعبے سے منسلک ہوئے اور ایک کامیاب کنٹریکٹر ثابت ہوئے۔ سڑکوں کی تعمیر ان کاتخصص تھا۔ ایک طرف سڑکوں کی تعمیر تو دوسری طرف انہوں نے بے شمار نوجوان فنکاروں کیلئے ان کے کریئرکی راہیں ہموار کیں۔ حمایت اللہ پیدائشی فنکار تھے۔ انہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف میدانوں میں لوہا منوایا۔ فائن آرٹس اکیڈمی کے ذریعے انہوں نے ہزاروں نوجوان فنکاروں کو اسٹیج فراہم کیا۔ ان کی صلاحیتوں کو جلابخشی، انہیں عوام میں روشناس کرایا۔ وہ دن رات ان ہی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ حمایت اللہ نے اپنی ذات کے سوا ہر چیز کو اہمیت دی حتیٰ کہ اپنا گھر بسانے کی طرف بھی توجہ نہیں دی لیکن دیر آید درست آید کے مصداق 1974 ء میں اردو کی استاد ،مشہور مزاح نگار و محقق ڈاکٹر موسوی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ حمایت اللہ نے ایک اچھے صداکار، اداکار، کامیاب شاعر، محفلوں کے بہترین منتظم وغیرہ کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تھی۔

وہ انڈین پیپلز تھیڑ سے بھی وابستہ تھے ۔ انہوں نے ٹیلیوژن کی کئی مقبول عام سیریز میں کام بھی کیا۔ تہذیبی سرگرمیوں کے علاوہ حمایت اللہ نے ادب سے بھی اپنا رشتہ بنائے رکھا۔ دکنی زبان میں ان کے باغ و بہار مزاحیہ کلام کو اردو دنیا میں سراہا گیا۔ انہوں نے امریکہ، یورپ، کینیڈا ، سعودی عرب ، کویت ، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور قطر وغیرہ میں منعقد ہ مشاعروں میں شرکت کی۔ حمایت اللہ نے زندہ دلانِ حیدرآباد کے جنرل سیکریٹری اور نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

اس کے علاوہ وہ حیدرآباد میں 1985 ء میں منعقد ہ عالمی طنزو مزاح کا نفرنس کے نائب صدر بھی رہ چکے تھے۔ حمایت اللہ کو ہم بحیثیت ریڈ یوآرٹسٹ بچپن سے جانتے تھے۔ وہ 1960 ء کی دہائی میں حیدرآباد ریڈیو پر چھوٹے نواب کے عنوان سے پروگرام پیش کرتے تھے جو حیدرآباد کے بچوں میں بے حد مقبول پروگرام ہوا کرتا تھا لیکن حمایت بھائی سے تعارف تب ہوا جب ہم نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔

حمایت بھائی حیدرآباد کے اکثر ادبی، تہذیبی پروگراموں کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ ان کے مزاح کا خاصہ تھا کہ وہ کسی سے ایک مرتبہ ملتے تو اسے اپنا گرودہ کر لیتے تھے لہٰذا چند ایک ملاقاتوں کے بعد وہ ہمارے بے تکلف دوست بن گئے تھے۔ حمایت بھائی ہندوستانی بزم اردو ر،یاض کی دعوت پر جشن شگوفہ ،دکن میں شرکت کیلئے ریاض آئے تھے۔ تب ان کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا تھا۔ یہ جشن شگوفہ کئی اعتبار سے یادگار جشن تھا۔ اس میں کئی مزاحیہ شعراء اور نثر نگار شریک تھے جن میں مجتبیٰ حسین، حمایت اللہ، غوث خواہ مخواہ، طالب خوندمیری، نریندر لوتھر، مصطفی علی بیگ، فرید انجم اور رؤف رحیم شامل تھے۔

ان سب کے علاوہ طنز و مزاح میں ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ماہنامہ شگوفہ کے ایڈیٹر مصطفی کمال بھی شامل تھے۔ بہرحال حمایت بھائی کے حوالے سے بے شمار یادیں ذہن میں محفوظ ہیں جن کا شمار کریں تو ایک طویل دفتر چاہئے۔ حمایت بھائی کی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف دوسروں کیلئے جیتے تھے۔ انہوں نے خود پر کبھی توجہ ہی نہیںدی۔ نہ انہوں نے کبھی اپنی تہذیبی سرگرمیوں اور اپنے کارہائے نمایاں کو مرتب کیا۔ نہ اپنی شاعر ی کو سنجیدگی سے یکجا کرکے رکھا۔ بمشکل تمام ان کا ایک مجموعۂ کلام ’’دھن مڑی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔دکنی زبان میں’’ دھن مڑی‘‘ چاول کے کھیت کو کہتے ہیں۔اس میں حمایت اللہ کے تعارفی مضمون میں ان کی بیگم ڈاکٹر موسوی نے لکھا تھا کہ حمایت نے کبھی اپنے کلام کو محفوظ رکھنے کی طرف دھیان نہیں دیا۔

چلتے پھرتے کاغذ کے پرزوں پر شعر لکھ دیتے ہیں۔ انہیں اپنے اشعار سلسلہ وار ترتیب دے کر کسی ڈائری یا نوٹ بک میں نقل کرنے کی عادت نہیں ۔ مجھے جتنا کلام ملا ،اس میں زیادہ تر کاغذ کے پرزوں یا سگریٹ کی خالی ڈبیوں یا کبھی بس کے استعمال شدہ ٹکٹوں پر لکھا ہواتھا۔ میں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اس کو ترتیب دینے کی کوشش کی۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ شعر کہے ہوں گے۔ جب ان کو ان کے لکھے ہوئے پرانے گیت اور بعض مشہور نظموں کو یاد دلانے کی کوشش کریں تو وہ ارے ہاں، وہ اچھا، کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں۔

بہرحال جیسے تیسے میں نے کلام کو ترتیب تو دے دیا مگر اس کو چھپوانے کیلئے وہ تیار نہ ہوئے۔ ان کے بہی خواہوں کے اصرار پر انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی اور آج یہ مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ حمایت اللہ پچھلے دو سال سے کافی بیمار تھے۔ جس شخص نے ساری زندگی تہذیبی اور ادبی سرگرمیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں گزاری وہ پچھلے کئی ماہ سے اپنے گھر میں مقیدتھے۔ خالق کائنات نے انہیں ایک طویل قامت سے نوازا تھا۔ ادبی حلقوں میںانہیں’’ مزاح کا قطب مینار‘‘ کہا جاتا تھا۔ آخر کار مزاح کا یہ قطب مینار 26 مئی 2017 ء کومنہدم ہو گیا۔

حمایت اللہ نے اپنے پیچھے ناقابل فراموش کارناموں اور خوشگوار یادوں کا سمندر چھوڑا ہے جو احباب کے ذہنوں میں برسوں ٹھاٹیں مارتا رہے گا۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے۔ آخرت میں بھی ان کے درجات بلند فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔

بُزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا

 اک میچ تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا

 جب موت آکے میرے کو کرنے لگی سلام

میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا

٭٭٭

سنورنے کے اُنوں جتے بھی چیزاں ہیں، منگاتے ہیں

 نظر لگتی ککو کاجل کا ٹپکا بھی لگاتے ہیں

مگر کاجل کا ٹپکا تو بڑی مشکل سے دکھتا ہے

دکھا کو سہیلیوں کے منہ کو یا کپڑوں پہ دِکھتا ہے

شیئر: