Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی بے بسی سی بے بسی ہے، اجمل جامی کا کالم

کبھی ٹی ایل پی دھرنے پر تھی تو آج جماعت اسلامی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اخبار کھولا تو فرنٹ پیج پر بڑی بڑی شہ سرخیوں کے بیچ دبی ایک سنگل کالمی خبر نے گویا جکڑ کر رکھ دیا۔ ایڈیٹر نے جس قدر اس خبر کو دبایا یہ خبر اس سے ہزار گنا زیادہ چیخ چیخ کر شہ سرخی کو نگل رہی تھی۔ خبر عوام پر بیت رہی کٹھن زندگی کا احوال تھی، خبر بے بسی، لاچارگی، غربت اور فاقہ کشی کا استعارہ تھی۔ خبر ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی حالات کا غماز تھی۔ خبر تھی:
’تین خود کشیاں، گوجرانوالہ میں دس ہزار بجلی کا بل آنے پر خاتون کی خود کشی‘
تفصیل کچھ یوں تھی:
’گوجرانوالہ میں 10ہزار روپے بجلی کا بل آنے اور آپریشن کے پیسے بجلی بل میں جمع کرانے سے دلبرداشتہ بزرگ بیوہ خاتون نے نالے میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ جڑانوالہ اور قصور کے علاقے سرائے مغل میں خود کشیوں کے دیگر دو واقعات میں دو افراد نے بھی زندگیاں ختم کر لیں۔ مکی روڈ کھیالی کی رہائشی 65 سالہ رضیہ بی بی کچھ عرصہ سے ہرنیہ کی بیماری میں مبتلا تھیں اور ان کا علاج ہو رہا تھا، معاشی حالات بھی خراب تھے۔ گذشتہ روز رضیہ اپنی بیٹی کے ساتھ گھر سے بل جمع کروانے اور اپنی دوائی لینے بازار گئی، بل جمع کروایا تو آپریشن اور دوائی کے لیے مزید پیسے نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہو کر دکان کے باہر سیم نالے میں چھلانگ لگا دی، واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آ گئی۔ ڈوبنے والی خاتون کے ورثا کا کہنا ہے کہ رضیہ بی بی کے علاج کے لیے ڈاکٹرز ساٹھ سے ستر ہزار روپے مانگ رہے تھے، ان کے پاس جو پیسے تھے اس سے انہوں نے بجلی کا بل جمع کرا دیا۔‘
یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے، چند روز پہلے گجرانوالہ میں ہی بجلی کے زیادہ بل پر دو بھائیوں کے بیچ تلخی ہوئی، ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ ہفتہ دو قبل ایک اور افسوس ناک واقعہ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پیش آیا جہاں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے گزر بسر کرنے والی ایک مطلقہ خاتون نسرین بی بی کے گھر کا بجلی کا بل 20 ہزار روپے آیا۔ بل ادا نہ کرنے پر گیپکو کے اہلکاروں نے گھر کا کنکشن کاٹ دیا۔ شدید گرمی میں بچوں کو بلکتا دیکھ کر نسرین بی بی سے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے گھر میں پڑا تیزاب پی کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ چیخ وپکار سن کر اہلِ محلہ نے گوجرانوالہ میڈیکل کالج ٹیچنگ ہسپتال داخل کروایا جہاں اس کی حالت تاحال تشویش ناک بیان کی جا رہی ہے۔
خبروں کے اسی پیمانے کا تناظر بدل کر ذرا ملک بھر کے محل وقوع پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گوادر سے لے کر پارا چنار تک ایک آگ کی سی لکیر دہک رہی ہے۔ تشدد ہے، بے چینی ہے، امن و امان کی صورتحال پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اسی پیمانے کا رخ سیاسی معیار پر بدلیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ کبھی ٹی ایل پی دھرنے پر تھی تو آج جماعت اسلامی، کبھی مولانا ملک گیر احتجاج کا پلان کرتے ہیں تو کبھی تحریک انصاف اگست سے ملک بھر میں دھرنوں کا عندیہ دیتی ہے۔

ذرا ملک بھر کے محل وقوع پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گوادر سے لے کر پارا چنار تک ایک آگ کی سی لکیر دہک رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈسٹری کی صورتحال دیکھیں تو کولا نیکسٹ کے مالک اچانک لاپتہ ہو جاتے ہیں، اگلے روز ان کی کمپنی کے دو انتہائی اہم ترین ذمہ داران کی بھی دو مختلف شہروں سے اغوا ہونے کی خبر ملتی ہے۔ چند روز کی بے خبری کے بعد اچانک موصوف گھر جا پہنچتے ہیں۔ فیصل آباد کی ملیں تو مہنگی گیس اور بجلی کے باعث تقریباً تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہیں۔ اس تباہی سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ شوگر ملز کی کہانی کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اضافی شوگر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت نہ ملنے پر پانچ بڑی شوگر ملز نے دو ڈھائی ہزار مزدور فارغ کر دیے ہیں۔
مذہبی مورچے کی جانب نظر ڈالیں تو سننے کو ملتا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ان کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں دھمکی آمیز فتوی صادر کر دیا گیا ہے اور سرکار نام لیے بغیر پریس کانفرنس کر کے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے۔
میڈیا کی صورتحال پر کیمرہ گھمائیں تو ایک خود ساختہ مورخ اور دانشور خواتین کی عزتیں اچھالنے میں فخر محسوس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں عظمیٰ بخاری وزیر ہوتے ہوئے عدالتوں کے دروازے کھٹکا رہی ہوتی ہیں تو کہیں غریدہ فاروقی اپنی عزت بچانے کی خاطر اس کو نوٹس جاری کر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں کوئی بشریٰ بیگم پر عجب کیچڑ اچھال رہا ہوتا ہے تو کہیں ممبئی میں ورلڈ کپ جیتنے والی انڈین ٹیم کے سواگت کو نام نہاد دانشور گوادر میں جاری احتجاج  ثابت کرتے ہیں۔ کہیں نجم ولی کو دبے لفظوں میں ان کی غیرصحافتی خدمات کا طعنہ دیا جاتا ہے تو کہیں نجم ولی جواباً زبان و بیان کی قید سے باہر نکل کر زہر اگلنے لگتے ہیں۔ بھلا ہو زوہیب سلیم بٹ کا کہ جس نے خود ہی ادراک کرتے ہوئے غریدہ فاروقی سے غیر مشروط معذرت طلب کر کے اپنی تربیت کا بہتر مظاہرہ کر کے نئی روایت رکھ دی۔

فیصل آباد کی ملیں تو مہنگی گیس اور بجلی کے باعث تقریباً تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

ایسے میں رات کی تاریکی میں گہرے سانس لیتے ہوئے جب یہ سوچوں کہ آگے کیا ہو گا تو آگے گہری کھائی دکھائی دیتی ہے۔ کپتان نے نیوٹرل ہونے کی فرمائش کر کے شاید کہیں ونڈو کھولنے کی تو کوشش کی ہے، لیکن بدلے میں مقتدرہ اور سرکار ماضی سے کچھ سیکھنے کے بجائے بدستور مقبول سیاست کو انتظامی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے مشن پر بدستور گامزن دکھائی دیتی ہے۔ قومیں تاریخ سے سیکھتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں؟ 71 سے کیا سیکھا؟ بھٹو سے کیا سیکھا؟ ضیا کے مشن سے کیا پایا؟ مشرف کی دور اندیش سوچ نے کیا دیا؟ قبولیت کے پیمانوں پر پورا اترتے سیاست دانوں نے حالیہ بیس سے پچیس برسوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ مقبول ن لیگ سولہ ماہ کی پی ڈٰی ایم سرکار کے کارن کیوں غیرمقبول ہوئی؟ غیرمقبول ہوتا کپتان اقتدار سے نکل کر جیل پہنچا، لیکن پھر بھی انتہائی مقبول کیسے بن گیا؟ سوشل میڈیا کا جن بوتل میں قابو ہونے کے بجائے سر چڑھ کر کیوں بول رہا ہے؟ ہے کسی کو فکر۔۔؟
فکر اسے ہوتی ہے جو انا اور ہٹ دھرمی سے بالا ہو کر ملک اور قوم کے لیے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو، ایسے رہنماؤں کو دنیا منڈیلا، گاندھی اور جناح کے ناموں سے یاد رکھتی ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو کن ناموں سے یاد رکھا جائے گا؟

شیئر: