Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور گوادر انتظامیہ کے درمیان معاہدہ طے، دھرنے تاحال جاری

مذاکرات میں طے پایا کہ تمام گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لیے سندھ حکومت سے بات چیت کی جائے گی۔ فائل فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی ایکس
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) اور گوادر کی ضلعی انتظامیہ کے درمیان معاہدہ طے پانے کے باوجود  گوادر سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں جاری احتجاجی دھرنے ختم نہیں ہو سکے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ مطالبات پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد دھرنے ختم کیے جائیں گے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ گوادر انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد بی وائی سی کے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ مختلف شہروں میں دھرنے ختم اور رکاوٹیں ہٹا کر شاہراہیں کھول دی جائیں گی۔
صوبائی وزارت داخلہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے ختم ہونے کے بعد گرفتار افراد کو رہا کر دیا جائے گا جبکہ گوادر میں موبائل فون نیٹ ورک بھی کھول دیا جائے گا۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان کے درمیان سات نکاتی معاہدے پر باقاعدہ دستخط بھی ہوئے ہیں۔
’اس معاہدے کے تحت بلوچستان اور کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی کا حکم دھرنا ختم ہونے پر جاری کیا جائے گا۔ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے گئے افراد کو پانچ اگست تک رہا کیا جائے گا۔‘
معاہدے میں طے پایا ہے کہ احتجاج کے دوران درج کیے گئے تمام مقدمات ختم کیے جائیں گے ماسوائے ان مقدمات کے جن میں کوئی جانی نقصان ہوا ہو۔ تمام راستے اور شاہراہیں دھرنے ختم ہوتے ہی ٹریفک کے لیے کھول دی جائیں گے۔ نیٹ اور انٹرنیٹ سروس تین گھنٹوں میں بحال کی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے قبضے میں لی گئیں اشیا واپس کی جائیں گے۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد شرکا کو ہراساں نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی مقدمہ درج کیا جائے گا۔
معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دھرنے کے دوران ہلاک و زخمی افراد کا بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لواحقین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے گا۔ گوادر میں میرین ڈرائیور کے ساتھ ساتھ بلوچستان بھر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے ختم کیے جائیں گے۔  
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں طے پایا کہ تمام گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لیے سندھ حکومت سے بات چیت کی جائے گی۔ راجی مچی کے شرکا کو احتجاج  ختم کرنے کے بعد محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے معاہدے کے ان نکات کی تصدیق کی ہے تاہم دھرنے کو بظاہر مطالبات پر عملدرآمد سے متعلق مشروط کیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے اردو نیوز نے بتایا کہ ہمیں قیادت کی جانب سے بھی اب تک احتجاج ختم یا مؤخر کرنے کی کوئی ہدایات نہیں ملیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کامیاب ہونے کا دعویٰ تو کر رہی ہیں لیکن مطالبات پر عملدرآمد شروع ہونے کے اشارے ابھی تک نہیں ملے اس لیے صوبے بھر میں ہمارا احتجاج جاری ہے۔
بی وائی سی نے اپنے آفیشل واٹس ایپ چینل پر جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں اس وقت تک دھرنا جاری ہے۔ حکومت کے ساتھ دو دن سے مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں عوام کو مطلع کر دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو  بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے نام سے جلسے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے اس جلسے کو روکنے، طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں کے خلاف جلسہ دھرنے میں تبدیل ہو گیا۔ مظاہرین نے گوادر کے میرین ڈرائیور پر چھ دنوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔
کوئٹہ  سمیت کئی دیگر شہروں میں بھی احتجاج جاری ہے جس کی وجہ سے سڑکیں اور کاروباری و تجارتی مراکز بھی بند ہیں اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

معاہدے کے تحت گوادر سمیت بلوچستان بھر میں دھرنے ختم کیے جائیں گے۔  (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی ایکس)

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق گوادر کے ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو، صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی، علاقے سے رکن قومی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن، کمشنر مکران ڈویژن داؤد خلجی، ڈپٹی کمشنر حمود الرحمٰن، ڈی آئی جیز سمیت دیگر حکام بھی مذاکرات میں موجود تھے۔
صوبائی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا، بی این پی مینگل کے ماجد سورابی، جے یوآئی کے مولانا عبدالحمید سمیت دیگر رہنماؤں نے ثالث کا کردارادا کیا۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران حکومت، انتظامیہ اور اداروں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ’پہلے ہی روز کہہ چکے تھے کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘
ضیا لانگو نے کہا کہ عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ احتجاج ضرور کریں تاہم احتجاج کی آڑ میں املاک کو نقصان، فورسز پر حملہ آور ہونا اور دوسرے شہریوں کو تکلیف نہ دیں۔‘
حکومت نے دو دن قبل بھی رات کو گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زعما سے مذاکرات کی کامیابی اور دھرنا ختم ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ماہ رنگ بلوچ نے اس کی تردید کی تھی۔

شیئر: