بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کامیاب، ’گرفتار افراد کو رہا کیا جائے گا‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کامیاب، ’گرفتار افراد کو رہا کیا جائے گا‘
جمعہ 2 اگست 2024 6:03
’بلوچ راجی مچی‘ کے نام سے قومی دھرنے میں صوبے بھر سے شہری شامل ہوئے۔ فوٹو: روئٹرز
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ گوادر انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد مختلف شہروں میں دھرنے ختم اور رکاوٹیں ہٹا کر شاہراہیں کھول دی جائیں گی۔
صوبائی وزیر داخلہ کے دفتر کی جانب سے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب جاری کیے بیان کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے ختم ہونے کے بعد گرفتار افراد کو رہا کر دیا جائے گا جبکہ گوادر میں موبائل فون نیٹ ورک بھی کھول دیا جائے گا۔
بیان کے مطابق گوادر کے ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو، صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی، علاقے سے رکن قومی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن، کمشنر مکران ڈویژن داؤد خلجی، ڈپٹی کمشنر حمود الرحمٰن، ڈی آئی جیز سمیت دیگر حکام بھی مذاکرات میں موجود تھے۔
صوبائی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا، بی این پی مینگل کے ماجد سورابی، جے یوآئی کے مولانا عبدالحمید سمیت دیگر رہنماؤں نے ثالث کا کردارادا کیا۔
اس موقع پر بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کہا کہ وہ وزیراعلٰی کی ہدایت پر چار روز قبل گوادر پہنچے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران حکومت، انتظامیہ اور اداروں نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ ’پہلے ہی روز کہہ چکے تھے کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘
ضیا لانگو نے کہا کہ عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ احتجاج ضرور کریں تاہم احتجاج کی آڑ میں املاک کو نقصان، فورسز پر حملہ آور ہونا اور دوسرے شہریوں کو تکلیف نہ دیں۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی صورت نہیں دے سکتے۔
وزارت داخلہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’جمعے سے صوبے بھر کی تمام قومی شاہراہیں کھول دی جائیں گی۔‘
اعلامیے کے مطابق موبائل نیٹ ورک جلد بحال، تمام جگہوں سے رکاوٹیں ہٹا کر راستے کھولے جائیں گے۔ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم ہونے کے بعد گرفتار افراد کو رہا کیا جائے گا۔
حکومت نے دو دن قبل بھی رات کو گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زعما سے مذاکرات کی کامیابی اور دھرنا ختم ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ماہ رنگ بلوچ نے اس کی تردید کی تھی۔