چکوال میں شوہر کے ہاتھوں بیوی قتل، ایک آنکھ بھی نکال لی
اتوار 4 اگست 2024 17:56
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
پولیس کے مطابق مقتولہ کے جسم پر چُھریوں کے سات نشانات تھے جس میں سے ایک زخم دل پر بھی تھا اور شاہد یہی موت کا سبب بنا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک مقامی قصبے میں شوہر نے اپنی 22 سالہ بیوی کو تیز دھار آلے کی مدد سے قتل کرنے کے بعد اُس کی ایک آنکھ نکال لی اور کچھ اور اعضا بھی کاٹ دیے۔
پولیس نے مقتولہ کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس حوالے سے سے چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی حنا پرویز بٹ نے اپنے ٹویٹ میں بتایا ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کی ہدایات پر میں نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ملزم کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت جاری کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کو غیرت کے نام پر قتل قرار دیتے ہوئے مرکزی ملزم یعنی مقتولہ کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کیس کو جرائم پیشہ عناصر کے لیے نشان عبرت بنائیں گے۔
حنا پرویز بٹ نے مزید کہا کہ حکومت پنجاب مقتولہ کے بچوں کے تمام اخراجات اٹھانے میں اُس کے خاندان کی مدد کرے گی۔ مزید برآں پنجاب میں خواتین کی حفاظت کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں گے۔
قتل کا واقعہ کب پیش آیا؟
ڈی پی او چکوال کیپٹن (ر) واحد محمود کے مطابق ’22 سالہ لڑکی کو 26 جولائی کو اس کے شوہر گوہر نے درانتی کے ذریعے قتل کیا۔ جس کی ایف آئی آر 27 جولائی کو تھانہ صدر میں درج کی گئی ہے۔ خاتون کو قتل کرنے کے بعد تیز دھار آلے سے اُس کی ایک آنکھ بھی نکال دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔‘
چکوال پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ خاتون کو قتل کرنے کے بعد نعش کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملزمان نے مقتولہ کی دائیں آنکھ کسی تیز دھار آلے سے نکالی اور کچھ اور اعضا بھی کاٹ دیے۔
پولیس کے مطابق مقتولہ کے جسم پر چُھریوں کے سات نشانات تھے جس میں سے ایک زخم دل پر بھی تھا اور شاہد یہی موت کا سبب بنا۔
اس کے علاوہ چکوال کے مقامی صحافی نبیل انور ڈھکو کا کہنا تھا کہ مقتولہ کو مارنے سے پہلے اس کی دونوں ٹانگوں کو بھی جلایا گیا۔
انہوں نے اٗردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 22 سالہ لڑکی کا 13، 14 مہینے قبل سی سیکشن ہوا تھا۔ ملزمان نے مقتولہ کا سی سیکشن کے اس نشان سے پیٹ چاک کیا جس سے آنتیں باہر نکل آئیں۔‘
نبیل انور ڈھکو کے مطابق ’26 جولائی کی دوپہر کو مقتولہ کو پہلے ڈنڈوں سے مارا گیا جس کے بعد اُس نے بھاگ کر پڑوسیوں کے گھر پناہ لی جہاں سے اُسے خاوند دوبارہ گھسیٹ کر گھر واپس لایا۔ رات کو ملزمان نے تیز دھار آلے سے قتل کیا اور سفاکیت کا نشانہ بنایا۔‘
’مقتولہ کی نعش کو رات کے اندھیرے میں بیڈ کی چادر میں لپیٹ کر موٹر سائیکل پر رکھ کر گاؤں کے قریب ایک ڈیم میں پھینک دیا گیا۔‘
پولیس کے مطابق مرکزی ملزم نے 26 جولائی کو اپنی بیوی کا قتل کیا اور پھر 27 جولائی کو اپنی ہی مدعیت میں مقدمہ درج کروایا جس میں پولیس سے ملزمان کی تلاش کی درخواست کی گئی۔ تاہم پولیس تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ مقتولہ کا شوہر ہی مرکزی ملزم ہے جسے بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے واقعے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ 22 سالہ مقتولہ کی پانچ سال پہلے شادی ہوئی تھی اور اس کے دو بچے تھے۔ بڑا بیٹا تین سال جبکہ چھوٹی بیٹی 13، 14 مہینے کی ہے۔ مقتولہ کے والدین بوڑھے اور لاچار ہیں۔
مقامی صحافی نبیل انور ڈھکو نے مزید بتایا کہ اُنہیں دستیاب معلومات کے مطابق مقتولہ کا خاوند خود کام نہیں کرتا تھا اور اپنی اہلیہ کو 10 15 دنوں بعد میکے اس لیے چھوڑ جاتا تھا کہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے کچھ پیسے لے کر واپس آئے۔ مجبور والدین اور بھائی کبھی کوئی بکری بیچتے تو کبھی کوئی اور چیز۔ یوں اپنی بدقسمت بیٹی کو کچھ پیسے دیتے تاکہ اس کے گھر کا چولہا جل سکے۔ سسرالیوں کے ظلم کی ستائی ہوئی خاتون واپس میکے آنا چاہتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کے ایک افسر نے اُن کو بتایا کہ لڑکی چار ماہ قبل گھر سے غائب ہو گئی اور تین ماہ لاہور، سیالکوٹ اور شیخوپورہ کے دارالامانوں میں رہی۔ سسرالیوں نے گاؤں کے ایک لڑکے اور اس لڑکے کے بوڑھے والد پر خاتون کو اغوا کرنے کا پرچہ کروایا۔
پولیس حکام کے مطابق 27 جولائی کو گاؤں کے ایک شخص نے ڈیم میں لاش کو تیرتے ہوئے دیکھا اور پولیس کو کال پر اطلاع دی، جس کے بعد پولیس اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں۔ لاش کو نکال کر ڈسرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چکوال لایا گیا جہاں اُس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔