Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار، بلوچستان میں احتجاجی دھرنے جاری

بیبرگ بلوچ کے مطابق حکومت کی جانب سے ’طاقت کے استعمال‘ کے بعد گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کو دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچستان حکومت کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار ہے جس کی وجہ سے گوادر اور کوئٹہ سمیت صوبے کے کئی شہروں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے احتجاجی دھرنوں اور حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے شاہراہوں کی بندش کے باعث خوردنی اشیا کے ساتھ ساتھ پیٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ کوئٹہ میں 200 روپے فی لیٹر میں فروخت ہونے والے ایرانی تیل کی قیمت 350 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
بلوچستان حکومت نے 28 جولائی کو ’بلوچ راجی مچی‘ یا بلوچ قومی اجتماع میں شرکت کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا۔ اس دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بھی کئی مقامات پر دھرنے دے کر سڑکیں بند کر دیں۔ 
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے ’طاقت کے استعمال‘ کے بعد گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کو دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں احتجاج شروع کر دیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں پانچ مقامات گوادر میں میرین ڈرائیو پر، کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے باہر، تربت میں شہید فدا چوک پر، پنجگور میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر، نوشکی میں سٹیشن کے قریب اور حب چوکی میں احتجاجی دھرنے جا رہے ہیں۔
ان کے بقول پیر کو خاران میں متعدد افراد کی جبری گمشدگیوں کے خلاف چھٹے مقام پر بھی دھرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
بیبرگ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، ہمارے دھرنے جاری رہیں گے۔
صوبے کے کئی شہروں میں قومی شاہراہوں پر حکومت یا پھر مظاہرین کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے گوادر اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں معمولات زندگی متاثر ہیں۔ پولیس رپورٹس کے مطابق گوادر جانےوالی مکران کوسٹل ہائی وے کئی مقامات پر جبکہ پنجگور اور تربت کو گوادر سے ملانےوالی ایم ایٹ شاہراہ تالار کے مقام پر حکومت کی جانب سے جزوی طور پر بند رکھی گئی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں نے نوشکی میں مظاہرے کے دوران فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت کے خلاف تین دن تک کوئٹہ تفتان شاہراہ کو بند رکھا۔ اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ پھنس گئے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، جبکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بھی معطل ہو گئی۔ نوشکی لیویز کنٹرول کے مطابق پیر کی صبح مظاہرین نے تین دنوں بعد شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بحال کر دیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں احتجاج کر رہی ہے۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں لوگوں کو گاڑیوں کے لیے ایندھن کی قلت کا سامنا ہے۔ آل بلوچستان پٹرولیم ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر قیام الدین آغا نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان شاہراہ بند ہونے سے کراچی سے تیل کمپنیوں کی جانب سے گذشتہ تین دنوں سے سپلائی متاثر تھی جس کی وجہ سے کوئٹہ کے 80 فیصد پٹرول پمپ تیل نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ سپلائی متاثر ہونے کی وجہ سے پٹرول پمپوں پر دباؤ بڑھ گیا اس لیے جن پمپوں پر تیل دستیاب ہے وہاں لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
قیام الدین آغا کے مطابق پیر کو تین دن کے تعطل کے بعد سپلائی بحال ہونے سے صورتحال بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔
کوئٹہ میں ایرانی تیل کا کام کرنے والے نذیر احمد بارگزئی نے بتایا کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے ایران کے سرحدی علاقوں سے کوئٹہ اور صوبے کے کئی شہروں کو ایرانی تیل کی فراہمی بھی معطل ہے۔
’اس قلت کی وجہ سے ایرانی تیل کی فی لیٹر قیمت میں 150 روپے تک اضافہ ہو گیا ہے۔ جو ایرانی تیل پہلے 190 اور 200 روپے میں فی لیٹر مل رہا تھا اب 350 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔‘
حکومت اور مظاہرین کے درمیان اس کشیدگی کی وجہ سے مکران اور گوادر سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق ساحلی شہر میں 10 دنوں سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’گوادر میں خوراک اور روز مرہ کی ضروریات کے لیے کراچی پر انحصار کیا جاتا ہے لیکن گذشتہ 10 دنوں سے حکومت نے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ کراچی سے خوردنی اشیا لانے والے مال بردار ٹرکوں کو بھی روکا گیا تھا جس کی وجہ سے شہر میں اشیا خورد و نوش کی قلت پیدا ہو گئی۔ مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمتیں بھی کافی بڑھ گئی تھیں۔‘

کوئٹہ میں 200 روپے فی لیٹر میں فروخت ہونے والے ایرانی تیل کی قیمت 350 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ پیر کو جزوی طور پر حکومت نے راستے بحال کر دیے ہیں۔ راشن لانے والے ٹرکوں کو گوادر میں داخلے کی اجازت مل گئی ہے جس کی وجہ سے صورتحال بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ دکانیں اور مارکیٹیں کھل گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اب بھی کچھ مشکلات اور مسائل ہیں، حکومت نے پی ٹی سی ایل لینڈ لائن اور اس پر انٹرنیٹ سروس 10 دنوں بعد بحال کر دی ہے تاہم موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس اب بھی بند ہے۔‘
’گوادر سے باہر جانے والوں کو اجازت دی جا رہی ہے تاہم گوادر واپس آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کوسٹل ہائی وے اور تربت کی طرف کافی چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں جہاں واپس جانے والوں کی انٹری کی جا رہی ہے جس سے پروفائلنگ کا خطرہ ہے۔ حکومت واپس جانے والوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جانے دیں۔‘
گوادر کے حالات کے حوالے سے وہاں کے مقامی صحافی صداقت بلوچ نے بتایا کہ کراچی سے سینکڑوں ٹرکوں کے راشن لے کر گوادر پہنچنے پر 10 دنوں بعد عوام نے سُکھ کا سانس لیا تاہم راستے مکمل طور پر بحال نہیں۔ گوادر اور باقی شہروں کے درمیان بس سروس اب بھی بند ہے، حکومت صرف چھوٹی اور ذاتی گاڑیوں میں گوادر کے مقامی باشندوں کو داخلے کی اجازت دے رہی ہے۔
گوادر کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق ایران سے پاکستان واپس آنے والے تقریباً 800 زائرین کو بھی بحفاظت کراچی پہنچا دیا گیا ہے۔ جو گذشتہ ایک ہفتے سے سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے گوادر میں گبد رمدان سرحد پر پھنسے ہوئے تھے۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور اتوار کو ہوا تاہم ڈیڈلاک ختم نہ ہو سکا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ’بلوچ راجی مچی‘ کے تمام گرفتار شرکا کی رہائی، ہراساں نہ کرنے کی یقین دہانی، تمام مقدمات کے خاتمے، راستوں اور نیٹ ورک کی بحالی، احتجاج کے دوران ہلاک و زخمی افراد کے مقدمات کا بلوچ یکجہتی کمیٹی یا لواحقین کی مرضی سے اندراج جیسے مطالبات سامنے رکھے ہیں۔

بیبرگ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، ہمارے دھرنے جاری رہیں گے۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

گوادر سے بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق مذاکرات میں پیشرفت ہو گئی تھی، فریقین میں معاہدے پر دستخط بھی ہو گئے تھے تاہم نوشکی میں مظاہرے کے دوران فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت، کوئٹہ اور کراچی میں مظاہرین کی گرفتاری کے بعد صورتحال خراب ہو گئی اور مذاکرات میں ڈیڈلاک آ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر وزیر میر ظہور احمد بلیدی کی قیادت میں مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے، اس میں سیاسی جماعتیں اور ہم ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ مسئلے کا پرامن حل نکلے۔ امید ہے مذاکرات میں جلد پیشرفت ہو جائے گی۔
مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف مقدمات واپس لینے اور تھری ایم پی او کے تحت تمام گرفتار افراد کی رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ گوادر میں گرفتار 83 مظاہرین کو رہا کر کے دھرنے کے شرکا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت باقی گرفتار افراد کی رہائی ، نوشکی واقع میں ہلاک نوجوان کے مقدمے سے متعلق نکات پر بات چیت چل رہی ہے، ان کے حل ہونے پر مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت ایک دوسرے پر معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا الزام ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، معاہدے کرنے کے بعد کراچی اور کوئٹہ میں مظاہرین پر تشدد اور مزید گرفتاریاں کی گئیں جبکہ نوشکی میں مظاہرے پر فائرنگ کر کے نوجوان کا قتل کیا گیا۔

مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ پیر کو جزوی طور پر حکومت نے راستے بحال کر دیے ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ گوادر میں مذاکرات جاری ہیں اور آخری مرحلے تک پہنچ چکے ہیں، امید ہے کہ ایک دو دن میں معاملہ طے پا جائے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے کوئٹہ میں احتجاج کرنے کی اجازت دی لیکن احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی پالیسی ہے کہ پرامن احتجاج کیا جائے تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن پرتشدد احتجاج کے باوجود حکومت نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔ آل پارٹیز کے نمائندوں، رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہداہت الرحمان کی موجودگی میں مذاکرات کیے گئے لیکن بعد میں مذاکرات کو ماننے سے انکار کیا گیا۔

شیئر: