Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈھاکہ سے دہلی: استعفے کے بعد حسینہ واجد کے پہلے 24 گھنٹے کیسے گزرے؟

خیال تھا کہ شیخ حسینہ واجد انڈیا میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد برطانیہ روانہ ہوں گی۔ (فوٹو: سکرین گریب)
بنگلہ دیش کی تاریخ کے ہنگامہ خیز دن یعنی پیر کو ڈھاکہ سے دو درخواستیں تقریباً ایک ہی وقت میں دہلی پہنچیں۔
بنگلہ دیشی اخبار ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق یہ درخواستیں حسینہ واجد کی جانب سے آرمی چیف سے ملاقات اور مستعفی ہونے کے فیصلے کے بعد بھیجی گئیں۔
پہلی درخواست براہ راست شیخ حسینہ واجد کی جانب سے بھیجی گئی جس میں انہوں نے انڈین حکومت سے اجازت مانگی کہ انہیں انڈیا آنے دیا جائیں۔
لگ بھگ اسی وقت ایک اور درخواست بنگلہ دیش سے انڈیا پہنچی جو کہ آرمی کی طرف سے تھی۔ آرمی کی جانب سے فوجی طیارے کی انڈیا لینڈنگ کے لیے کلیئرنس مانگی گئی جو شیخ حسینہ واجد کو لے کر جا رپا تھا۔
انڈیا کی جانب سے کلیئرنس ملنے کے بعد پیر کی شام بنگلہ دیش کا فوجی طیارہ حسینہ واجد کو لے کر دہلی کے قریب اترا۔
یہ بات انڈیا کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے انڈیا کے پارلیمان کے ایوان بالا میں  دیے گئے بیان میں بتائی۔
شیخ حسینہ واجد نے پہلے 24 گھنٹنے کیسے گزارے؟
انڈیا اترنے کے بعد شیخ حسینہ واجد کا استقبال انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے کیا۔ اجیت دوول نے مودی کے نمائندے کی حیثیت میں شیخ حسینہ کا خیرمقدم کیا۔
اس کے بعد ایئربیس کے لاؤنج میں چائے پر شیخ حسینہ اور اجیت دوول کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی۔

ڈھاکہ میں بنگلہ دیش نیشنیلسٹ پارٹی کے کارکنان ریلی کے لیے جمع ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شیخ حسینہ واجد کی بیٹی صائمہ واجد پوتل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریجنل ڈائریکٹر کے طور پر گذشتہ برس سے دہلی میں مقیم ہیں۔ تاہم پیر کو صائمہ دہلی میں نہیں بلکہ تھائی لینڈ میں تھیں۔
شیخ حسینہ واجد کی دہلی آمد کے بعد انہوں نے تھائی لینڈ سے اپنی والدہ سے رابطہ کیا جس کے بعد وہ واپس دہلی کے لیے روانہ ہوگئیں۔
اس دوران شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوئی نے امریکہ سے کئی مرتبہ اپنی والدہ سے رابطہ کیا۔
واضح رہے شروع میں انڈیا کا خیال تھا کہ شیخ حسینہ واجد کا قیام دہلی میں بہت مختصر ہو گا۔
شیخ حسینہ نے انڈیا آنے کی اجازت مانگتے ہوئے بھی کہا تھا کہ وہ کچھ وقت کے لیے دہلی آئیں گی۔ اس لیے انڈین حکام کا خیال تھا کہ شیخ حسینہ واجد کچھ گھنٹے دہلی میں گزارنے کے بعد کسی تیسرے ملک روانہ ہو جائیں گی۔
انڈین حکام کو یقین تھا کہ تیسرا ملک برطانیہ ہو گا۔
یہ اس وجہ سے بھی تھا کہ شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ان کی بہن شیخ ریحانہ بھی تھیں جن کے پاس برطانوی شہریت ہے۔

شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیا ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شیخ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی کی سینیئر رکن، رکن پارلیمان اور جونیئر منسٹر ہیں۔
شیخ حسینہ نے بھی لندن میں کافی وقت گزارا ہے۔ برطانیہ کی اقتدار سے برطرف ہونے والے حکمرانوں کو سیاسی پناہ دینے کی تاریخ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ انہیں برطانیہ جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
شیخ حسینہ واجد کا طیارہ دہلی میں اترا تو اس وقت انڈیا کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ وہ دہلی رُکی ہوئی ہیں اور کچھ دیر کے بعد لندن روانہ ہو جائیں گی۔
اس کے بعد بحث بھی شروع ہوگئی تھی کہ آیا بنگلہ دیش کی فوج کا سی ون تھرٹی طیارہ ہی ان کو لے کر لندن جائے گا یا انڈین طیارہ یا پھر وہ کمرشل پرواز کے ذریعے لندن جائیں گی۔   
تاہم رات شروع ہوتے ہی یہ واضح ہو گیا کہ برطانیہ میں شیخ حسینہ واجد کو سیاسی پناہ دینے کا معاملہ اتنا آسان اور سیدھا نہیں ہو گا جس طرح ابتدا میں سوچا جارہا تھا۔
پیر کو رات گئے دہلی میں برطانوی ہائی کمشنر نے انڈین حکام کو آگاہ کیا کہ حسینہ واجد کی پناہ کی درخواست زیرغور ہے اور اس پر فیصلے میں وقت لگے گا۔

نوبل انعام یافتہ محمد یونس شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد کئی سکینڈے نیوین ممالک بشمول فن لینڈ سے رابطہ کیا گیا کہ ان کو وہاں کم از کم عارضی سیاسی پناہ مل سکے۔
تاہم پیر اور منگل کی درمیانی رات اس معاملے پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
 اسی دوران انڈین کابینہ کا ہنگامی اجلاس وزیراعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں بنگلہ دیش کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
جب یہ اندازہ ہوا کہ شیخ حسینہ اور ان کی بہن پیر اور منگل کی شب کسی تیسرے ملک روانہ نہیں ہو سکیں گی پھر ان کو ہندون ایئربیس کے لاؤنج سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
شیخ حسینہ واجد اور ان کی بہن کو اس کے بعد پیراملٹری فورس کے ہندوں ایئر بیس سے دور غازی آباد میں واقع گیسٹ ہاؤس (سیف ہاؤس) میں منتقل کر دیا گیا۔
منگل کی شام تک شیخ حسینہ اور ان کی بہن اسی سیف ہاؤس میں رہیں۔

شیخ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی کی سینیئر رکن اور جونیئر منسٹر ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جب منگل کی صبح تک یہ واضح ہوا کہ شیخ حسینہ جلد تیسرے ملک نہیں جاسکتیں تو وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے انڈین حکومت کی جانب سے بنگلہ دیش کی صورت حال پر بلائے گئے کل جماعتی اجلاس کو بتایا کہ فی الحال شیخ حسینہ واجد انڈیا میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایس جے شنکر نے بتایا کہ انڈین حکومت نے شیخ حسینہ واجد کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی ہے۔ ’حکومت ان کو اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت دینا چاہتی ہے۔‘
منگل کی صبح جب شیخ حسینہ کو انڈیا لے آ کر آنے والے سی ون تھرٹی جہاز نے انڈیا سے اڑان بھری تو انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی نے خبر چلائی کہ شیخ حسینہ دہلی سے روانہ ہو گئیں۔ تاہم کچھ دیر بعد اے این آئی نے خبر کی تصحیح کی کہ سی ون تھرٹی بنگلہ دیش کے فوجی حکام کو لے کر ڈھاکہ چلا گیا ہے اور اس میں حسینہ واجد موجود نہیں تھیں۔
اس طرح شیخ حسینہ واجد نے حکومت سے برطرفی کے بعد اپنے پہلے 24 گھنٹے انتہائی بے یقینی کی کیفیت میں گزارے۔

شیئر: