Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی عدم تعاون، وہ باصلاحیت کھلاڑی جو عالمی مقابلوں میں حصہ نہ لے سکے

سونے کا تمغہ جیتے والے پاکستانی ریسلر انعام بٹ بھی رواں برس اولمپکس کے مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکے (فوٹو: اے پی)
پاکستان میں ان دنوں جہاں اولمپیئن گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کی کامیابی کے بہت چرچے ہیں تو وہیں ملک میں کچھ ایسے دوسرے کھلاڑیوں کے بارے میں بھی بات کی جارہی ہے جو حکومتی تعاون کی صورت میں اولمپکس یا دوسرے بڑے عالمی مقابلوں میں پاکستان کے لیے میڈلز جیت سکتے تھے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت کم از کم پانچ ایسے کھلاڑی ہیں جو حکومتی توجہ اور سہولیات کی فراہمی کے نتیجے میں اولمپکس یا ایسے دوسرے بڑے عالمی مقابلوں میں شرکت کر کے میڈلز جیت سکتے تھے۔ ان کھلاڑیوں نے اولمپکس، کامن ویلتھ یا دیگر بڑے عالمی مقابلوں میں اپنی عدم شرکت کو متعلقہ حکومتی فیڈریشنز کی ناقص حکمت عملی کو قرار دیا ہے۔
پاکستانی ریسلر انعام بٹ
پاکستان کے لیے عالمی مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتے والے پاکستانی ریسلر انعام بٹ بھی رواں برس اولمپکس کے مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکے۔ اُنہوں نے بھی پیرس اولمپکس میں اپنی عدم شرکت کو فیڈریشن کی ناقص حکمت عملی اور سہولیات کے فقدان کو قرار دیا ہے۔
انعام بٹ نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اولمپکس میں کوالیفائی کے لیے پورا سال ریسلنگ کے مقابلوں کا انعقاد ضروری ہے۔ تاہم ہمیں ایسے مقابلے ملتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔‘
’پاکستان میں ریسلنگ وہ کھیل ہے جس سے اولمپکس میں میڈل جیتے جا سکتے ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز میں بھی پاکستانی ریسلرز نے میڈل جیت رکھے ہیں۔ اگر حکومت اولمپکس کے مقابلوں میں شمولیت کے لیے پیشگی تیاری اور انتظامات کرے تو ارشد ندیم کی طرح پاکستانی ریسلرز بھی اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔‘
کامن ویلتھ گیمز کے گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ
کامن ویلتھ گیمز میں طلائی کا تمغہ جیتنے والے ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے پیرس اولمپکس میں شرکت نہ کرنے کی ذمہ داری ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پر عائد کی ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن چاہتی ہی نہیں تھی کہ میں اولمپکس مقابلوں میں شرکت کروں۔‘
نوح دستگیر بٹ نے ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پر الزام عائد کیا گیا کہ ’فیڈیریشن کے عہدیدران ذاتی رنجش کی وجہ سے مجھے پیرس اولمپکس میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے۔‘
اُنہوں نے کھلاڑیوں کو ملنے والی سہولیات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں کسی بھی کھلاڑی کو سہولیات تب ہی دی جاتی ہیں جب وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ مجھے بھی کامن ویلتھ گیمز جیتنے کے بعد سہولیات دی گئیں تھیں۔ اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔‘

نوح دستگیر بٹ نے کہا کہ ’پاکستان میں کسی بھی کھلاڑی کو سہولیات تب ہی دی جاتی ہیں جب وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔‘ (فوٹو: پی او اے)

کامن ویلتھ گیمز کے گولڈ میڈلسٹ کا کہنا تھا فیڈریشن میڈل جیتنے کے بعد کہتی ہے کہ صرف اُنہیں کریڈیٹ دیا جائے حالانکہ اصل محنت کسی اور کی ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل نوح دستگیر بٹ نے 2022 میں برطانیہ میں ہونے والے دولت مشترکہ کے کھیلوں میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اُنہوں نے 109 کلو گرام سے زیادہ وزن کے ویٹ لفٹرز کے مقابلے میں مجموعی طور پر 405 کلوگرام وزن اٹھا کر نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کیا تھا بلکہ کامن ویلتھ گیمز کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔
پاکستانی باکسر عثمان وزیر
لگاتار اپنی 13 انٹرنیشنل فائٹس جیتنے والے پاکستانی باکسر عثمان وزیر بھی پیرس اولمپکس 2024 کے مقابلوں میں پاکستانی کی نمائندگی نہیں کر سکے۔
اُنہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ اُن کی خواہش تھی کہ اولمپکس، کامن ویلتھ اور ایشین گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے، تاہم پاکستان کے موجودہ سسٹم اُنہیں یہ موقع فراہم نہیں کیا۔
عثمان وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک کھیل کی دو دو فیڈیریشن بنی ہوئی ہیں اور وہ آپ کو تبھی سپورٹ کرتی ہیں جب آپ کسی ایک دھڑے کی حمایت کریں، ایسے ماحول میں کھلاڑی ترقی نہیں کرسکتا۔
اُنہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کھلیوں کے موجوہ نظام کے ہوتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب صرف پروفیشنل باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لوں گا اور جس میں بیشتر ٹائٹل بھی جیتے۔‘
عثمان وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ارشد ندیم جیسے کھلاڑی پیدا کرنے ہیں تو کھیل سے سیاست کو دور کرنا ہو گا اور میرٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو یکساں مواقع دینے ہوں گے۔

عثمان وزیر پاکستان کے لیے ورلڈ یوتھ ٹائٹل، ایشین ٹائٹل اور مڈل ایسٹ ٹائٹل بھی جیت چکے ہیں (فوٹو: عثمان وزیر ایکس)

یاد رہے کہ عثمان وزیر پاکستان کے لیے ورلڈ یوتھ ٹائٹل، ایشین ٹائٹل اور مڈل ایسٹ ٹائٹل بھی جیت چکے ہیں۔
پاکستانی پول والٹر علی جافر
پاکستان میں مقامی سطح پر پولٹ والٹ کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوان کھلاڑی علی جافر بھی عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے خواہشمند ہیں۔
اُنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر اُنہیں حکومتی سطح پر مناسب سہولیات اور فنڈز فراہم کیے جائیں تو وہ ایشین گیمز، کامن ویلتھ اور اولمپکس کے مقابلوں میں بھی شرکت کر کے پاکستان کے لیے میڈلز جیت سکتے ہیں۔
جیولن تھرو کے کھلاڑی محمد یاسر سلطان
پاکستان میں ارشد ندیم کے بعد جیولن تھرو کے دوسرے بڑے کھلاڑی محمد یاسر سلطان بھی ایتھلیٹس کو حکومتی تعاون نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں۔
اُنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایشین تھروئنگ چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر حکومت نے مجھے 50 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا اور یہ عالمی مقابلوں میں عدم شرکت کی ایک وجہ بنا۔‘

یاسر سلطان نے کہا کہ ’میرے اختیار میں صرف ٹریننگ کرنا ہے سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے پی پی)

جیولن تھرور محمد یاسر بھی حالیہ دنوں اس بات کا بھی ذکر کر چُکے ہیں اُن کے پاس ایک معیاری جیولن تک کی سہولت موجود نہیں تھی۔
اُنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’میرے اختیار میں صرف ٹریننگ کرنا ہے سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔‘
یاد رہے کہ محمد یاسر سلطان نے جنوبی کوریا میں منعقد ایشین تھروئنگ چیمپئن شپ میں 78.10 کی تھرو کے ساتھ چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔
پاکستانی کھلاڑیوں کو عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے مناسب سہولیات فراہم نہ کرنے کے معاملے پر جب پاکستان سپورٹس بورڈ کے سابق ڈائرکٹر جنرل اور آرمی سپورٹس بورڈ کے سابق سربراہ برگیڈئیر (ر) عارف صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں اِس وقت عالمی مقابلوں کے معیار پر پُورا اترنے والے کھلاڑیوں کی کمی ہے۔ مقامی سطح یا ریجنل مقابلوں کی نسبت کامن ویلتھ یا اولمپکس کے مقابلوں کے لیے کئی سال محنت کرنا پڑتی ہے اور کھلاڑیوں کو سخت مقابلوں کا بھی سامنا ہوتا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ اگر کوئی کھلاڑی کسی چھوٹے پلیٹ فارم پر کوئی میڈل جیتتا ہے تو یہ لازمی نہیں کہ وہ اولمپکس کے مقابلوں کے لیے اہل ہو گیا ہے۔ تاہم اُنہوں نے بتایا کہ ایسے کھلاڑیوں کے لیے ملک میں اگر معیاری نظام قائم کر دیا جائے تو وہ ضرور اولمپکس جیسے ببڑے مقابلوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔

شیئر: