Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا ایپس تک رسائی میں مشکلات، پاکستان میں انٹرنیٹ کا مستقبل کیا؟

انٹرنیٹ سروس کی رفتار اس حد تک سست روی کا شکار ہے کہ ہر دوسرا صارف اس کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ (فائل فوٹو: وائرلیس نیشن)
’میں تصویر اپ لوڈ کرتی ہوں یا کسی کو بھیجتی ہوں تو وہ اتنا وقت لیتی ہے کہ دل اکتا جاتا ہے۔ گاہکوں کی طرف سے اگر کسی سوٹ کی قیمت پوچھنے کے لیے وائس میسج آ جائے تو وہ ڈاؤن لوڈ نہیں ہوتا۔ اس جھنجھٹ کی وجہ سے کاروبار کو اچھا خاصا نقصان پہنچ رہا ہے۔‘
علشبہ عارف کا تعلق صوبہ پنجاب کی تحصیل کھاریاں سے ہے اور وہ آن لائن کپڑوں اور آرٹیفیشل جیولری کا کاروبار کرتی ہیں۔ وہ کسی بڑے تاجر سے کپڑوں، بیڈ شیٹس اور جیولری کی تصاویر یا ویڈیوز منگواتی ہیں۔ اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر وہ تصاویر لگاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی گاہکوں کو بھیجتی رہتی ہیں۔
گذشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستان میں انٹرنیٹ بالخصوص موبائل ڈیٹا پر فائروال کی تنصیب کے لیے کیے جانے والے تجربات نے جہاں عام موبائل صارفین کو متاثر کیا ہے وہیں آن لائن کاروبار کرنے والے افراد بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
فائروال اگرچہ سوشل میڈیا ایپس کو مانیٹر کرنے کے لیے لگائی جا رہی ہے لیکن حیران کن طور پر مانیٹرنگ کے بجائے انٹرنیٹ سروس کی رفتار اس حد تک سست روی کا شکار ہے کہ ہر دوسرا صارف اس کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آن لائن کاروبار کرنے والی علشبہ عارف نے بتایا کہ ’گاؤں دیہات میں لوگ انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال نہیں جانتے اس لیے میرے جیسی بہت سی لڑکیاں صرف واٹس ایپ کے ذریعے ہی کاروبار کرتی ہیں۔ میں عموماً ایک دن میں سات سے 10 سوٹ، ایک دو سیٹ بیڈ شیٹس اور کبھی کبھار جیولری کا کوئی سیٹ فروخت کر لیتی ہوں۔ میری گاہک ایک دو گاؤں کی ہی خواتین ہیں جو واٹس ایپ کے ذریعے ہی مجھ سے رابطہ کرتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے اور میرے پاس یا اور بھی کئی جاننے والی لڑکیوں کے پاس سرمایہ نہیں تھا اس لیے ہم ایڈوانس میں کوئی چیز نہیں منگواتے بلکہ گاہکوں سے ملنے والے آرڈرز آگے بھجواتے ہیں، اور جب وہ موصول ہو جاتے ہیں تو گاہکوں کو بھجوا دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’محرم کے بعد سے اب تک کاروبار مندی کا شکار ہے اور وجہ یہ ہے کہ گاہک تک سوٹ کی تصویر بھیجنا اور پھر بھاؤ تاؤ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ جب واٹس ایپ نہیں چلتا تو گھریلو خواتین جو ہماری گاہک ہیں، وہ فون چھوڑ کر اپنے کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی آرڈر مل بھی جائے تو بڑے دکاندار کو اس کے بارے میں بتانا الگ عذاب ہے کیونکہ اس طرف بھی رابطہ واٹس ایپ کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔‘

گذشتہ دو تین ہفتوں سے پاکستان میں سوشل میڈیا ایپس ڈاؤن ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اگرچہ حکومت نے فائروال کی تنصیب کا منصوبہ مخصوص پوسٹوں کی مانیٹرنگ کے لیے بنایا تھا لیکن گذشتہ دو تین ہفتوں سے مخصوص پوسٹوں کے بجائے سوشل میڈیا ایپس ہی ڈاؤن ہیں اور وی پی این پر چل رہی ہیں جو کہ عام صارف استعمال کرنا بھی نہیں جانتا۔ سوشل میڈیا صارفین میں کئی ایک نے ان ایپس کو اپنے کاروبار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
مومنہ منور راولپنڈی کی رہائشی ہیں اور وہ فیس بک کے ذریعے برانڈڈ کپڑوں، گارمنٹس، جیولری اور بچوں کے استعمال کی اشیا فروخت کرتی ہیں۔ وہ فیس بک پر آرڈر بک کرتی ہیں اور کے شوہر ان آرڈرز کو کوریئر کے ذریعے گاہکوں کو بھجواتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ سنیچر اور اتوار کے روز وہ فیس بک کے مختلف گروپوں میں اپنے پاس دستیاب اشیا کی تشہیر بھی کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ فیس بک لائیو کا سہارا لیتی ہیں۔
ان کا بھی کہنا تھا کہ ’جب سے انٹرنیٹ کے ساتھ تجربات کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ فیس بک پر لائیو نہیں آ سکیں اور اپنے پاس موجود پروڈکٹس اپنے گاہکوں کو نہیں دکھا سکیں۔ فیس بک اتنا سلو ہے کہ لوگوں نے استعمال کرنا کم کر دیا ہے اس لیے کئی کئی روز تک ایک ہی طرح کی پوسٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔ خود بھی کوئی چیز پوسٹ کر دیں تو اس پر فیڈ بیک انتہائی کم ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے کاروبار شدید مندی کا شکار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر یہی صورت حال رہی تو ہم جیسے ہزاروں لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے۔‘

پی ٹی اے کا نیا پالیسی فریم ورک

پاکستان میں ایک طرف جہاں حکومتی سطح پر فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی، سرکاری اداروں کی رجسٹریشن، ای دفاتر کے قیام کے ساتھ نوجوانوں کو ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد سے بہرہ ور کرنے کے لیے قسطوں پر موبائل فون دینے کی بات ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں وہیں فائروال کی تنصیب سے ڈیجیٹل کاروبار اور اس سے وابستہ افراد کے لیے راستے بھی مسدود کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

واٹس ایپ صارفین کو پیغامات کی ترسیل میں تاخیر اور وائس و ویڈیو کال کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

گذشتہ چند دنوں میں پاکستان بھر میں صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور انسٹاگرام تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ یہ مشکلات نہ صرف رابطوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں بلکہ ان پلیٹ فارمز کی طویل مدتی دستیابی کے بارے میں بھی خدشات بڑھا رہی ہیں۔
 واٹس ایپ، جو پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ ایپلی کیشن ہے، بھی اس تجربے سے متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں صارفین کو پیغامات کی ترسیل میں تاخیر اور وائس و ویڈیو کال کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ایک پالیسی فریم ورک کابینہ کو بھجوایا ہے جس کی منظوری کے بعد نئے فریم ورک کے تحت واٹس ایپ، سکائپ، فیس بک میسنجر، ایمو، وائبر سمیت مختلف فورمز کو لائسنس اور اوتھرائزیشن لینا ہو گی۔ ٹویٹر، فیس بک، لِنکڈ اِن، آن لائن گیمنگ اور ای کامرس پلیٹ فارمز کو بھی ریگولیٹ کیا جائے گا۔
میڈیا ڈیجیٹل سروسز کو بھی پی ٹی اے اور پیمرا مل کر ریگولیٹ کریں گے جبکہ کمیونیکیشن سروسز، ایپلی کیشن سروسز اور میڈیا سروسز کی الگ الگ کیٹیگری بنائی جائیں گی۔
ایپلی کیشن سروسز میں فِیس بُک، ایکس، ای سروسز، ای کامرس، گیمنگ اور لِنکڈ اِن جیسی سروسز شامل ہوں گی، نان براڈ کاسٹنگ سروسز میں یوٹیوب، نیٹ فلیکس، سپاٹیفائی اور وی او ڈی جیسے فورمز بھی ریگولیٹ اور مانیٹر کیے جائیں گے۔
فریم ورک کی منظوری کی صورت میں تمام پلیٹ فارمز کو 12 ماہ کے اندر اتھارٹی سے رجسٹریشن یا لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کا مستقبل کیا ہو گا؟

پاکستان میں انٹرنیٹ کی حالیہ سست روی کے اثرات صرف سماجی تعلقات تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ان پلیٹ فارمز پر انحصار کرنے والے کاروباری ادارے اور تعلیمی ادارے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ابھی ترقی کے مراحل میں ہے، یہ رکاوٹیں معیشت اور ڈیجیٹلائزیشن کے عمل پر دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے افراد کے مطابق فائروال کی تنصیب سے نہ صرف پرائیویسی کا بنیادی حق سلب ہو گا بلکہ اظہار رائے کی آزادی بھی چھن جائے گی۔ (فائل فوٹو: ایکس)

اس صورت حال میں جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے کہ جب سوشل میڈیا ایپس وی پی این کے بغیر نہیں چل رہیں۔ حکومت تمام آن لائن فورمز کو ریگولیٹ کرنے جا رہی ہے۔ فائروال بھی لگ جائے گی اور تمام انٹرنیٹ صارفین کی ایک ایک پوسٹ تک اداروں کو رسائی ہو گی تو ایسے میں پاکستان میں انٹرنیٹ کا مستقبل کیا ہو گا؟
جہاں حکومت نے فائروال کو نظم و ضبط برقرار رکھنے اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے، وہاں اس منصوبے کے ارد گرد شفافیت کی کمی نے شبہات اور مخالفت کو مزید ہوا دی ہے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ پاکستان میں آن لائن سپیس کو ریگولیٹ اور کنٹرول کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے۔
دوسری جانب فائروال کی تنصیب کے حوالے سے ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے اس سے نہ صرف پرائیویسی کا بنیادی حق سلب ہو گا بلکہ اظہار رائے کی آزادی بھی چھن جائے گی۔ سیلف سینسرشپ عام ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ آن لائن کام کرنے والے بالخصوص آئی ٹی برآمدات کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے سرگرم امجد قمر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کے دور میں کسی بھی ایسے سسٹم کی تنصیب جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس کی رسائی کو متاثر کرے، اس سے ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ سنسرشپ اور سوشل میڈیا مواد کی فلٹرنگ اظہار رائے کی آزادی، معلومات تک رسائی کے حق، اور پرائویسی کو شدید متاثر کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی روانی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چئیرمین نے کہا ہے کہ پاکستان میں وی پی این کے استعمال کو بھی کنٹرول کیا جائے گا۔‘

’سیلف سینسرشپ عام جائے گی‘

ڈیجیٹل رائٹس کے کے لیے سرگرم ہارون بلوچ کے مطابق ’انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانا بنیادی طور پر اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کے مترادف ہے، اسی طرح فائروال کی تنصیب بنیادی انسانی حقوق میں سے سب سے اہم پرائیویسی کے حق میں مداخلت ہے۔‘

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اور دیگر پابندیوں کے باعث آئی ٹی برآمدات میں کمی ہو سکتی ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ہارون بلوچ کے مطابق ’جب کسی ایک بنیادی حقوق پر قدغن لگائی جاتی ہے یا اس کو سلب کیا جاتا ہے تو اس سے انسان کے کئی دوسرے حقوق از خود متاثر ہوتے ہیں۔ جب سرکار کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کرے گی یا اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگائے گی تو ایسے میں لوگ سیلف سینسرشپ کرنے لگیں گے اور معاشرے میں مکالمہ اور بامقصد تنقید کا وجود ناپید ہو جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان سوشل میڈیا کے حوالے سے چینی ماڈل اپنانے جا رہا ہے۔ لیکن فی الحال یہ مفروضہ ہے تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں سوشل میڈیا کے کئی ایک پلیٹ فارمز کو مکمل طور پر بلاک کر دے اور چینی طرز کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز متعارف کروائے۔ تاہم فائروال کی مکمل تنصیب کے بعد سوشل میڈیا کے علاوہ دیگر پلیٹ فارمز کے لیے انٹرنیٹ کی فراہمی میں بہتری آنے کا امکان ضرور ہے۔‘
اس حوالے سے امجد قمر نے کہا کہ ’ٹیکنالوجی کی نگرانی سے سیلف سینسر شپ بڑھنے کا امکان ہے۔ میڈٰیا اور صحافت جو پہلے ہی سنسر شپ کا شکار ہیں۔ ان کو تنقیدی خبریں رپورٹ کرنے پر مزید نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ صحافی تحقیقاتی صحافت سے گریز کریں گے۔‘

آئی ٹی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ

جولائی 2023 سے جون 2024 تک پاکستان کی آئی ٹی برآمدات تین ارب 22 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں دو ارب 59 کروڑ 69 لاکھ ڈالر تھیں۔ لیکن ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اور دیگر پابندیوں کے باعث ان میں کمی ہو سکتی ہے۔
امجد قمر کے مطابق ’فائروال کی تنصیب سے مستقبل قریب میں جہاں بنیادی ڈیجیٹل حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے وہیں ہر طرح کے کاروبار بشمول آن لائن کاروبار اور فری لانسنگ شدید مالی نقصان کا شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے سٹارٹ اپس کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ بہت سے سٹارٹ اپ بند ہو رہے ہیں۔ اور موجود سٹارٹ اپس نقصان میں جا رہے ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہو گا بلکہ نوجوانوں میں مایوسی بڑھے گی۔‘

انیس قریشی کے مطابق فائور نامی کمپنی نے پاکستانی فری لانسرز کو کام دینا بند کر دیا ہے۔ (فائل فوٹو: اینڈرائیڈ اتھارٹی)

امجد قمر نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان میں سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ ای کامرس سے متعلقہ کاروبار جو صارفین کے ساتھ رابطے، اشتہارات اور فروخت کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمز تک رسائی محدود ہو جائے تو ان کی ٹریفک اور آمدنی میں کمی ہو گی۔‘

فری لانسنگ کا شعبہ شدید متاثر

پاکستان میں بہت سے نوجوان فری لانسنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کئی ایک عالمی پلیٹ فارمز پر اپنے اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ کام حاصل کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گذشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی نے ان کے کاموں کو شدید متاثر کیا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والے انیس قریشی کے مطابق ’اس سلسلے میں فائور نامی کمپنی نے پاکستانی فری لانسرز کو کام دینا بند کر دیا ہے کیونکہ وہ بروقت کام مکمل کر کے فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے تھے اور اس کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ کی سست روی اور بندش ہے۔‘
’میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے فری لانسرز اور کمپنیوں کا حالیہ انٹرنیٹ مسائل کی وجہ سے کام ٹھپ ہو گیا ہے۔‘
انیس قریشی کے مطابق بہت سی آن لائن کاروبار کرنے والی کمپنیوں کی کسٹمر سپورٹ واٹس ایپ کے ساتھ منسلک ہوتی ہے اور پاکستان میں واٹس ایپ کی بندش کے باعث ان کمپنیوں کو اپنے کسٹمرز کے ساتھ رابطوں اور ان کے مسائل حل کرنے میں مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

عالمی رینکنگ متاثر ہونے کا امکان

ڈیجیٹل اکانومی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ارسلان اشرف نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر پابندیوں سے جہاں آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی نوکریاں اور روزگار متاثر ہوتے ہیں وہیں آئی ٹی ایکسپورٹ پر بھی اثر پڑے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کی رینکنگ بھی متاثر ہو گی اور مختلف ممالک اور تنظیموں کی جانب سے حکومت پر پریشر آئے گا۔

شیئر: