’چوہے بلی کا کھیل ہے‘، بجلی بلوں میں اضافی یونٹس ختم کرنے سے چوری بڑھ گئی
بدھ 14 اگست 2024 7:42
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
آپریشن کے 305 دنوں میں ایک لاکھ 12 ہزار سے زائد بجلی چوروں کی نشاندہی ہوئی۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں ان دنوں بجلی کی ہوشربا قیمتوں کی بحث سب سے بڑا موضوع ہے۔ ایک طرف حکومت آئی پی پیز کی وجہ سے جنم لینے والے خسارے کے ہاتھوں عاجز ہے تو دوسری طرف بجلی چوری کا سلسلہ قابو میں نہیں آ رہا۔ جس کا بوجھ سیدھا عام صارف پر آ رہا ہے۔
حکومت نے اس بوجھ کو کم کرنے کا ابھی تک جو نسخہ متعارف کروایا ہے وہ یہ کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو عوام کو بجلی کے اضافی یونٹ ڈالنے سے روک دیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے بجلی کی تقیسم کار کمپنیوں کو اضافی یونٹ ڈالنے پر پہلے وارننگ دی گئی اور اب ایک سافٹ ویئر کے ذریعے اضافی یونٹس کی بلوں میں منتقلی روک دی گئی ہے۔ جبکہ ایک ارب کے لگ بھگ بجلی کے یونٹس کو واپس ایڈ جسٹ کیا جا رہا ہے۔
اس سارے عمل سے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف تو ملا ہے تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ماہانہ اور سالانہ ٹارگٹ نیچے آ گئے ہیں بلکہ بجلی چوری کا عمل کھل کر سامنے آیا ہے۔ یعنی مبینہ بجلی چوری سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے وہ بوجھ عوام پر تقسیم کیا جا رہا تھا اس سے روکے جانے پر بجلی چوری کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔
پنجاب کی سب سے بڑی بجلی کی تقسیم کار کمپنی لیسکو کی اپنی دستاویزات کے مطابق صرف جولائی میں کمپنی کو بجلی چوری کی مد میں 16 کروڑ ساٹھ لاکھ یونٹس کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی مالیت تقریبا 8 ارب روپے بنتی ہے۔
دستاویزات کے مطابق چوری یا لائن لاسز جو پہلے گیارہ فیصد تھے اب اٹھارہ فیصد ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال باقی کمپنیوں کی بھی ہے۔
گزشتہ سال نومبر سے ملک بھر میں بجلی چوری کے خلاف مہم چلائی گئی ہے اور لاکھوں بجلی چوروں پر مقدمے بنائے گئے ہیں تاہم اس کے باوجود نقصان کو پورا کرنے کے لیے عام لوگوں کو اضافی یونٹ ڈالے جا رہے تھے۔
بجلی چوروں کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن میں اس وقت تک حتمی طور پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے لیسکو کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے اس سے پہلے اتنا بڑا آپریشن نہیں دیکھا جس میں اتنی بجلی چوری پکڑی گئی ہو۔ اس چوری ہونے والی بجلی کے یونٹس کو باقی لوگوں پر تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘
انہو ںے بتایا کہ ’نیشنل گرڈ پر ہر کمپنی کے اپنے میگا میٹر لگے ہیں، نیپرا اس کی مانیٹرنگ براہ راست کرتا ہے۔ جب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس بجلی آتی ہے لیسکو کے پاس 75 لاکھ میٹر لگا ہوا اس ہر ایک میٹر سے ریڈنگ کو پیچھے لگے ہوئے میٹر کی ریڈنگ سے ہر مہینے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔‘
لیسکو کے عہدیدار نے کہا کہ ’اس سادہ سی جمع تفریق سے ایک سیکنڈ میں پتا چل جاتا ہے کہ کتنی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ وہ نقصان اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ نیپرا کے سامنے جواب دہ ہونے کے بجائے چپکے سے اُس نقصان کا تقریبا آدھا صارفین کو اضافی یونٹس کی صورت میں ڈالا جاتا ہے۔ اب چونکہ وزارت داخلہ خود اس عمل کی نگرانی کر رہی ہے کہ اضافی یونٹ عوام پر نہ پڑیں تو بجلی کی تقسیم کار سب کمپنیوں کے لائن لاسز یا بجلی چوری میں اچانک تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ ایک طرح سے چوہے بلی کا کھیل ہے۔‘
خیال رہے کہ لیسکو کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق بجلی چوری کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کے پچھلے 305 دنوں میں ایک لاکھ 12 ہزار سے زائد بجلی چوروں کی نشاندہی ہوئی۔ جن میں سے 94 ہزار کے خلاف مقدمے درج ہوئے اور 35 ہزار گرفتار ہوئے ایسے افراد سے ساڑھے چار ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔
اس حوالے سے جب لیسکو کے ڈپٹی ڈائریکٹر مسعود کھرل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ بجلی چوری کے ایک طاقتور کمپین کے باجود ان دنوں بجلی چوری کے اعداد وشمار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے بالکل بھی نہیں ہے کہ پہلے لوگ بجلی چوری نہیں کر رہے تھے اور اب اچانک کرنا شروع ہوئے ہیں۔ بلکہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ صرف بجلی چوری نہیں بلکہ لائن لاسز اور دیگر فیکٹر بھی ہیں۔ بڑی تعداد میں فیکٹریاں بند ہوئی ہیں۔ سولر لگنے کی وجہ سے بھی بجلی ضائع ہو رہی ہے۔‘
اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف حکومت بجلی چوری کے خلاف آپریشن کر رہی ہے تو دوسری طرف صارفین پر اضافی یونٹ ڈالنے سے روک رہی ہے جس کی وجہ سے درمیان میں موجود بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اس نئی صورت حال سے نبرد آزما ہیں کیونکہ اضافی یونٹ ڈالنے کا ان کا بڑا ہتھیار واپس لے لیا گیا ہے۔