سماجی رویے یا معاشی حالات: پاکستانی نوجوان شادی سے گریزاں کیوں؟
سماجی رویے یا معاشی حالات: پاکستانی نوجوان شادی سے گریزاں کیوں؟
بدھ 14 اگست 2024 16:25
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ملک میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد چار کروڑ 25 لاکھ ہو گئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
42 سالہ شفیقہ تبسم کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کے بھائی بہنوں کی شادیاں نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام بھائی بہنیں اپنے کیریئر بنانے کے لیے پہلے ماسٹرز، پھر ایم فل کرنے بعد نوکریوں پر لگ گئے اور دو نے تو پی ایچ ڈی بھی کر لی۔
اپنے تعلیمی سفر اور کیریئر میں وہ اتنے مگن رہے کہ ان کی شادیوں کی عمریں گزر گئیں۔ اس دوران اگر کوئی رشتہ آیا بھی تو وہ ایسا تھا جو ان کی تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے یا مالی لحاظ سے کمزور تھا۔ اس وجہ سے خود ان سب نے اور والدین نے بھی رشتہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔
یوں اب والدین میں سے ایک کے گزر جانے کے بعد بھی وہ سب مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود شادی کیے بغیر ہی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ واحد خاندان نہیں ہے جہاں بچوں کے رشتوں کی عمریں گزر گئی ہیں بلکہ اس طرح کے ہزاروں خاندان ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کر پا رہے۔ جس وجہ سے ملک میں غیرشادی شدہ مرد و خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ملک میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد چار کروڑ 25 لاکھ ہو گئی ہے۔ گذشتہ چھ سالوں میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد میں تقریباً 52 لاکھ کا اضافہ ہوا، سنہ 2017 میں یہ تعداد تین کروڑ 73 لاکھ تھی۔
پنجاب میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ دو کروڑ 36 لاکھ ہے، سندھ 95 لاکھ 86 ہزار، خیبرپختونخوا 66 لاکھ 72 ہزار، بلوچستان 21 لاکھ 81 ہزار جبکہ اسلام آباد میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد چار لاکھ 86 ہزار ہو گئی ہے۔
غیرشادی شدہ افراد میں سے حیران کن طور پر مردوں کی تعداد زیادہ جو دو کروڑ 51 لاکھ سے زائد ہیں جبکہ غیرشادی شدہ عورتوں کی تعداد ایک کروڑ 71 لاکھ سے زائد ہے۔
یہ اعدادوشمار 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے کوائف کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے۔ غیرشادی شدہ افراد میں سے کم وبیش 45 فیصد کی عمریں 30 سال سے اوپر ہیں۔
’ہمارے قابل ہونے تک کافی دیر ہو چکی تھی‘
اپنی اور اپنے بہن بھائیوں کی شادیاں نہ ہونے کے حوالے سے شفیقہ تبسم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب ہم ٹین ایج میں تھے تو ہمارے ارد گرد جتنے بھی قریبی رشتے دار تھے ان کے بچے پڑھائی اور نمبروں کی دوڑمیں لگے ہوئے تھے۔ ہمارے والدین زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں تھے لیکن ان کے پاس وسائل تھے کہ وہ ہمیں پڑھا سکتے۔ اس لیے انہوں نے ساری توجہ ہماری تعلیم پر مرکوز کر دی۔ جب کبھی کوئی رشتے دار والد یا والدہ کو بچوں کی شادیوں کا مشورہ دیتا تو ان کا جواب ہوتا کہ اگر یہ کسی قابل ہو جائیں گی تو رشتے خود چل کر آئیں گے، لیکن ہمارے قابل ہونے تک کافی دیر ہو چکی تھی۔‘
شفیقہ تبسم نے کہا کہ ’کئی ایک مناسب رشتے بھی تھے جن پر غور کیا جا سکتا تھا لیکن ہم بہن بھائیوں نے سوشل سٹیٹس کی بنیاد پر انکار کر دیا کیونکہ وہ ہمارے اپنے ہی رشتے دار اور خاندان کے لوگ تھے جو ہم سے پیچھے رہ گئے تھے۔‘
’ہماری شادیاں نہ ہونے کے پیچھے تو پھر بھی کچھ حقیقت پر مبنی وجوہات ہیں لیکن میری ایک دوست کے والد نے یہ کہہ کراپنی تین بیٹیوں اور تین بیٹوں کی شادیاں نہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ بقول ان کے خواب میں کسی بزرگ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔‘
’اب لوگ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں‘
ملک میں غیرشادی شدہ مرد و خواتین کی تعداد میں اضافے کے والے سے ماہر عمرانیات و نفسیات ڈاکٹر منیر احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غیرشادی شدہ افراد کی تعداد میں اضافے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے عناصر کار فرما ہیں۔ یہ بحث تو شاید پہلے بھی تھی لیکن یہ چیزیں اب زیادہ سامنے آنے لگی ہیں، خاص طور پر گذشتہ 14 15 برسوں میں چیزیں تیزی سے سامنے آئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا 14 15 برسوں کا تدریسی تجربہ ہے، سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال اور ٹی وی ڈراموں کی وجہ سے اب لوگ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور فیصلہ نہیں کر پاتے۔ پھر ڈراموں میں یہ چیز زیادہ سکھائی جاتی ہے کہ سسرال زیادہ بڑا نہ ہو یہ تمام چیزیں بھی مسائل پیدا کرتی ہیں۔‘
ڈاکٹر منیر احمد نے مزید کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ہی جونہی شادی کی بات آتی ہے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
’شادی ایک معاشی معاملہ ہے‘
تاہم سماجی اور ذہنی رویے ہی شادیاں نہ ہونے کی وجوہات نہیں ہیں بلکہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور شادی بیاہ پر ہونے والے بے پناہ خراجات بھی شادیوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس حوالے سے ماہر عمرانیات ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ ’شادی ایک معاشی معاملہ ہے، شادی کرنے کے لیے پیسہ چاہیے۔ دوسرا بیروزگاری کا مسئلہ بھی ہے، ملک کے اندر لڑکا کام کرے گا اس کو نوکری ملے گی تو اس کی شادی ہو گی کیونکہ اس نے خاندان چلانا ہے، اگر پیسے نہیں ہو گے تو وہ خاندان کیسے چلائے گا، یہ اس کی بہت بنیادی وجہ ہے۔ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں، بیروزگاری ہے، لوگ پھر اسی چیز کو ترجیح دے رہے ہیں کہ ابھی شادی نہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا یا گلوبلائزیشن کا بھی اثر ہے کیونکہ شادی ایک پورا پیکج ہے، لڑکی کی شادی ہے تو جہیز دینا ہے، لڑکے کی ہے تو ظاہر ہے لاکھوں روپے کا خرچہ ہے۔ بعد میں بچے کے ڈائپر سے لے کراس کے دودھ تک اور باقی خرچے ہیں تو اصل میں یہاں معاشی مسئلہ ہے جس کے باعث لوگ غیرشادی شدہ رہنا زیادہ پسند کر رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ معاشی حالات نے مجبور کر دیا ہے۔‘
ڈاکٹر رضوان کے مطابق ’شادی کے بجائے سنگل رہنے یا ریلیشن شپ میں رہنے کا رجحان زیادہ ہے۔ دیہات میں خاندان، برادری سے باہررشتے نہ کرنے اور مناسب جوڑ کے رشتے نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوگ کنوارے رہ جاتے ہیں۔‘