Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریلیف پیکیج بجلی صارفین تک پہنچانے میں مشکلات کیا؟

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’بجلی کے 201 سے 500 یونٹس تک صارفین کو 14 روپے فی یونٹ سبسڈی یا ریلیف دیا جائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب حکومت کی جانب سے ماہانہ 201 سے 500 یونٹس استعمال کرنے والے بجلی صارفین کے لیے فی یونٹ 14 روپے ریلیف دینے کا اعلان اضافی بلوں سے متاثرہ گھرانوں کے لیے اچھی خبر ہے۔ تاہم، اس ریلیف پیکیج کے عملی، بروقت اور مؤثر نفاذ میں بیوروکریٹک رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں۔
 پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے 45 ارب روپے مختص کیے ہیں، لیکن ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اعلان سے قبل اس رقم کی ادائیگی کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ جس کے باعث صارفین تک ریلیف پہنچانے میں تاخیر کا امکان ہے۔
 ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈسکوز فوری طور پر اس ریلیف کو عوام تک منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں وفاق کے تحت ہیں اور وہ صوبے سے براہ راست سبسڈی وصول کر کے عوام تک منتقل کرنے کے لیے قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب حکومت کی ترجمان اور صوبائی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے اردو نیوز سے گفتگو میں تصدیق کہ صوبائی حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں سمری وفاقی حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔ سمری کی منظوری کے بعد معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’بجلی کے اگست اور ستمبر میں استعمال ہونے والے 201 سے 500 یونٹس تک صارفین کو 14 روپے فی یونٹ سبسڈی یا ریلیف دیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی پہلے ہی ایک سے 200 یونٹ تک پورے پاکستان کے صارفین کو ریلیف دے رہا ہے۔ پنجاب کی جانب سے متوسط طبقے کو ریلیف ملنے کے بعد غریب اور متوسط طبقہ دونوں بجلی کے زیادہ استعمال کے مہینوں میں ریلیف حاصل کریں گے۔
دوسری جانب حکام نے بتایا ہے کہ ان قانونی نکات پر رہنمائی کے لیے  ڈسکوز نے پہلے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے رجوع کرنے کا سوچا تھا۔ بعد ازاں یہ طے پایا ہے کہ پنجاب حکومت اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے درمیان ایم او یوز پر وزارت توانائی کی نگرانی میں دستخط کیے جائیں گے۔ ان معاہدوں کے تحت ہر ڈسکوز اپنے متعلقہ صارفین اور ان کے بلوں کا ڈیٹا پنجاب حکومت کے ساتھ شیئر کریں گی۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر حکومت ہر ڈسکو کو فنڈز جاری کرے گی۔
ان کے مطابق عملی مشکلات اور معاہدوں کو حتمی شکل دینے اور نافذ کرنے میں دو سے زیادہ  مہینے لگ سکتے ہیں۔ تاہم صارفین کے لیے اعلان کردہ ریلیف ہر صورت بلوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

گذشتہ دو تین ماہ سے پاکستان میں صارفین کو بجلی کے زائد بلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

 ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ ہر بل پر ریلیف کی تفصیلات پرنٹ کی جائیں اور صارفین کو آگاہ کیا جائے کہ ان کا حقیقی بل اتنا تھا جس میں سے پنجاب حکومت کے ریلیف کے تحت اتنی کمی آئی ہے۔
لیکن ڈسکوز آپریشنل وجوہات کی بنا پر اس پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ دو تین ماہ سے پاکستان میں صارفین کو بجلی کے زائد بلوں کا سامنا ہے۔ گھریلو صارفین نے اپنے ماہانہ بلوں میں غیر معمولی اضافے کا سامنا کیا ہے، جس کے باعث ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔
صرف پنجاب میں ہی لاکھوں صارفین متاثر ہوئے ہیں، اور کچھ کو اپنے بلوں میں 30 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ بحران کئی عوامل کا نتیجہ ہے، جن میں عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور پاکستان کے پاور سیکٹر کی غیر مؤثر کارکردگی شامل ہیں۔
ان مسائل نے گھرانوں پر مالی بوجھ بڑھا دیا ہے، جس کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مختلف ریلیف اقدامات پر غور کرنا پڑا ہے۔

پنجاب میں دو کروڑ سے زائد بجلی کے صارفین ہیں، جن میں اکثریت 201 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

جماعت اسلامی نے دو ہفتے تک راولپنڈی کے مری روڈ پر دھرنا دیا اور حکومت کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے وعدے پر کیے گئے معاہدے پر دھرنا ختم کیا تاہم ملک بھر میں جلسوں کے ساتھ ساتھ 28 اگست کو شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال بھی دی گئی ہے تاکہ ملک بھر کے صارفین کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی اور آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز کا معاملہ حل کیا جا سکے۔
 پنجاب میں دو کروڑ سے زائد بجلی کے صارفین ہیں، جن میں اکثریت 201 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے ہیں۔ جب کہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے اسی حد کے تقریباً 40 لاکھ صارفین ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس ریلیف پیکیج کا حقیقی فائدہ اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کس قدر جلد اور مؤثر طریقے سے ان بیوروکریٹک اور آپریشنل رکاوٹوں کو دور کر سکتی ہے جو اس وقت اس کے راستے میں حائل ہیں۔ اگرچہ فنڈز مختص کرنا ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس منصوبے کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کس حد تک ڈسکوز کو اسے عوام تک منتقل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اور ریلیف کو بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے صارفین تک پہنچا سکتی ہے۔

شیئر: